کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 180
تو اس لحاظ سے اس جیسے واقعات کا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل پر بڑا گہرا اثر تھا۔ جس سے ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بہت ہی مضبوط ہو گیا۔ نتیجتاً وہ کثرت سے عبادت کرنے والی، اللہ کے حضور کثرت سے قیام کرنے والی اور دائمی تہجد گزار تھیں ۔[1] قاسم رحمہ اللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق رضی ا للہ عنہما اپنی پھوپھی ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ طویل قیام کرتی تھی۔ وہ کہتے ہیں : ’’میں جب صبح کو اٹھتا تو اپنی پھوپھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے ابتداء کرتا۔ سب سے پہلے انھیں سلام کرتا ایک بار میں جب صبح وہاں گیا تو دیکھا وہ نفل نماز میں یہ آیت پڑھی رہی تھیں : ﴿ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ﴾ (الطور: ۲۷) ’’پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں زہریلی لو کے عذاب سے بچا لیا۔‘‘ وہ دعا کر رہی تھیں اور رو رہی تھیں اور وہ یہ آیت بار بار دہرا رہی تھیں میں نے کھڑے ہو کر انتظار کیا تاآنکہ میں اکتا گیا اور بازار میں اپنے کام کے لیے چلا گیا۔ پھر میں واپس لوٹا تو دیکھا کہ وہ اسی طرح نماز پڑھتے پڑھتے رو رہی ہیں ۔‘‘[2] عبداللہ بن ابی موسی رحمہ اللہ کو مدرک یا ابن مدرک نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ مسائل پوچھنے کے لیے ان کے پاس بھیجا۔ بقول راوی:’’میں ان کے پاس گیا تو وہ اشراق کے نوافل پڑھ رہی تھیں ۔ میں نے کہا میں ان کے فارغ ہونے تک بیٹھتا ہوں ۔ تو ان کے پاس والوں نے کہا تو نے بہت مشکل فیصلہ کیا۔ یعنی تجھے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ وہ رکوع، سجود اور قیام کو طویل کرتی ہیں ۔‘‘[3] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نماز تراویح کا خصوصی اہتمام کیا کرتی تھیں ۔ جب رمضان آتا تو وہ اپنے خادم ذکوان کو حکم دیتیں وہ مصحف سے دیکھ کر ان کی امامت کرتا۔[4]
[1] مصنف عبدالرزاق، ج ۸، ص ۴۵۴، حدیث: ۱۵۸۸۷۔ [2] ابن ابی دنیا نے اسے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ جیسا کہ یہ روایت فتح الباری میں ہے۔ (فتح الباری لابن حجر، ج ۴، ص: ۲۴۷۔) اور ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے (صفۃ الصفوۃ، ج ۲، ص ۳۱۔) پر روایت کیا ہے۔ [3] مسند احمد، ج ۶، ص ۱۲۵، حدیث: ۲۴۹۸۹۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے (مجمع الزوائد، ج ۷، ص ۳۵۶۔) میں کہا ہے کہ اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں اور شعیب الارناؤط نے اسے مسند احمد کی تحقیق کرتے ہوئے صحیح کہا ہے۔ [4] امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں (حدیث: ۶۹۲۔) سے پہلے معلق روایت کیا۔ لیکن صیغہ روایت قطعی ہے۔ بیہقی نے اسے موصول روایت کیا ہے۔ (ج ۲، ص ۲۵۳، حدیث: ۳۴۹۷۔) نووی رحمہ اللہ نے ’’الخلاصۃ‘‘ میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (ج ۱، ص ۵۰۰۔) دیکھیں : (تغلیق التعلیق لابن حجر، ج ۲، ص ۲۹۰۔)