کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 18
روافض کی زمانہ قدیم سے یہ عادت چلی آتی ہے کہ جب وہ کوئی روایت گھڑتے ہیں تو اس جھوٹ کے ساتھ ایک آدھ لفظ ’’سچا‘‘ اور ’’صحیح‘‘ بھی لگا دیتے ہیں تاکہ سادہ لوح لوگوں کو اس پوری من گھڑت روایت کے سچ ہونے کا وہم ہو جائے اور یہ کہ جو کچھ انھوں نے وضع کیا ہے اس کے سچا ہونے کا یقین آجائے، نیز یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف طعن و تشنیع کی نسبت کرنے لگیں جس سے وہ بغض رکھتے ہوں ، تو ابتدا میں قصداً وہ ایسی روایات لاتے ہیں جن میں اس شخص کی نیکی اور صالحیت کا ثبوت ہو لیکن روافض ایسی روایات میں سے بھی اس شخص کے لیے طعن و تشنیع اور سب و شتم کے دلائل نکال لیتے ہیں اور اسے برے القاب سے ملقب کر کے ہی چھوڑتے ہیں ۔یہ رافضی گروہ ، اہل تشیع سے ایک غالی گروپ ہے۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے دین کو شبہات سے بچائے اور ان کی سماعت سے بھی پرہیز کرے اور ایسی مجالس میں بھی نہ جائے جہاں حضراتِ صحابہ کے بارے میں شبہات پیدا کیے جاتے ہیں ، کیونکہ فتنوں کے مقامات سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خصوصاً شبہات کے فتنوں سے کیونکہ شبہ حق کو دل سے نوچ لیتا ہے اور دشمنان دین شب و روز دین اور دین داروں سے مکر و فریب کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی گہری سازش مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنا ہے تاکہ سادہ لوح، کم علم اور کم بصیرت والے مسلمانوں کو بآسانی شکار بنا سکیں ۔ کیونکہ شبہ کا سبب دو میں سے ایک ضرور ہوتا ہے: (۱) قلت علم(۲) ضعف بصیرت۔
البتہ جو شخص علم و بصیرت میں راسخ ہو وہ شبہات سے نجات پا لے گا اور جو لوگ شبہات کی وجہ سے معروف ہیں اور جنھوں نے ان میں تخصص کیا ہوا ہے وہ رافضہ ہی ہیں ۔ چونکہ وہ گھٹیا ترین شبہات کے تانے بانے بنتے ہیں تاکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان طعن و تشنیع دراز کریں اور امہات المومنین خصوصاً سیّدہ عائشہ رضی ا للہ عنہما ان کی نفرتوں کا مرکز ہیں ۔ چنانچہ وہ ان نفوس قدسیہ کے بارے میں بہت زیادہ شبہات پیدا کرتے ہیں اور ان کی طرف اپنے زہریلے تیر ہر وقت پھینکتے رہتے ہیں ۔ لیکن ہر زمانے کے علمائے اہل سنت ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ وہ ان کے مکر و فریب اور سازشوں کو پہچان چکے ہیں اور ان کے معاملے کی چھان پھٹک کر کے ان کا کچا چٹھا کھول چکے ہیں ۔ جہاں بھی کوئی چھوٹا یا بڑا شبہ سر نکالتا ہے وہیں اہل سنت کا کوئی نہ کوئی سپوت آگے بڑھ کر اس کا سر کچل دیتا ہے۔
ان کی بہتان تراشیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس بھی محفوظ نہ رہی۔ بطورِ ثبوت میں ایک روایت کو پیش کرتا ہوں ۔ علی بن ابراہیم قمی رافضی اپنی سند کے ساتھ یوں روایت کرتا ہے(نقل کفر کفر نباشد)
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آپ کو اس کا شدید صدمہ ہوا چنانچہ عائشہ نے کہہ دیا: آپ کیوں غمگین ہو گئے حالانکہ وہ تو ابن جریج کا بیٹا تھا ....‘‘