کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 179
پھر یہ حدیث بیان کی کہ ایک رات کا واقعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تو مجھے جانے دے تاکہ آج رات اپنے رب کی عبادت کر لوں ۔‘‘ بقول عائشہ رضی اللہ عنہا : میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کا قرب چاہتی ہوں اور آپ کو خوش کرنا چاہتی ہوں ۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ اٹھے وضو کیا پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ وہ بیان کرتی ہیں ، آپ اتنا روئے کہ آپ کی گود بھیگ گئی۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ پھر رونے لگے حتیٰ کہ آپ کی داڑھی تر ہو گئی۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ پھر اتنا روئے کہ زمین تر ہو گئی۔ تب بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے۔ انھوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو کہا: اے رسول اللہ! آپ کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ بے شک آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی، اس شخص کے لیے ہلاکت ہو جو اسے پڑھے اور اس پر عمل نہ کرے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ﴾ (البقرۃ: ۱۶۴) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے، ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں ۔‘‘[1]
[1] صحیح ابن حبان: ۶۲۰۔ منذری نے اسے (الترغیب و الترہیب، ج ۲، ص: ۳۱۶۔) میں صحیح کہا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب میں اسے حسن کہا ہے اور وادعی نے اسے (الصحیح المسند: ۱۶۵۴۔) میں روایت کیا جبکہ اس کی اصل صحیحین میں ہے۔