کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 177
نے اسے دیکھا تو دروازے میں رک گئے اور اندر تشریف نہ لائے۔
بقول عائشہ رضی اللہ عنہا میں نے آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے اثرات دیکھے تو کہا: اے رسول اللہ! میں اللہ اور رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں ۔ میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بچھونا کہاں سے آیا یا کون لایا؟ تو انھوں نے کہا: میں نے تو یہ آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر ٹیک لگائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّ اَصْحَابَ ہٰذِہِ الصُّوَرِ یُعَذَّبُوْنَ، وَ یُقَالُ لَہُمْ: اَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ۔ ثُمَّ قَالَ: اِنَّ الْبَیْتَ الَّذِیْ فِیْہِ الصُّوَرُ لَا تَدْخُلُہُ الْمَلَائِکَۃُ)) [1]
’’بے شک یہ تصویریں بنانے والوں کو عذاب دیا جائے گا اور انھیں کہا جائے گا جو تم نے تخلیق کیا اسے زندہ کرو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک جس گھر میں تصویریں ہوں فرشتے اس میں نہیں آتے۔‘‘
صحیح مسلم میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
’’میں نے بچھونا لے کر اس کی دو چادریں بنا دیں جنھیں آپ گھر کے اندر اوڑھتے تھے۔‘‘[2]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کے متعلق ہمیں بتاتی ہیں جو کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے تھے۔ جب ان سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’کیا تو قرآن نہیں پڑھتا؟‘‘ اس نے کہا: کیوں نہیں (پڑھتاہوں )۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق قرآن تھا۔‘‘[3]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتی ہیں :
’’آپ بدگو اور بدکردار نہیں تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور و غل کرتے تھے اور نہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے۔ لیکن آپ عفو و درگزر کرتے تھے۔‘‘[4]
[1] صحیح بخاری: ۲۱۰۵۔ صحیح مسلم: ۲۱۰۷۔
[2] صحیح مسلم: ۲۱۰۷۔
[3] صحیح مسلم: ۷۴۶۔
[4] سنن ترمذی: ۲۰۱۶۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۱۷۴، حدیث: ۲۵۴۵۶۔ مسند طیالسی، ج ۳، ص: ۱۲۵۔ صحیح ابن حبان، ج ۱۴، ص ۳۵۵، حدیث: ۶۴۴۳۔ بیہقی، ج ۷، ص ۴۵، حدیث: ۱۳۶۸۲۔ ترمذی نے کہا حسن، صحیح اور البانی رحمہ اللہ نے اسے (صحیح سنن ترمذی: ۲۰۱۶) میں صحیح کہا ہے۔ وادعی رحمہ اللہ نے (الصحیح المسند: ۱۵۹۲) میں اسے صحیح کہا اور شعیب ارناؤوط نے اسے مسند احمد کی تحقیق کے دوران (ج ۶، ص: ۱۷۴) پر صحیح کہا ہے۔