کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 17
۱۔ الناصبیہ:....انھوں نے سیّدنا علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان عداوت قائم ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اس وقت کے مشہور سیاسی معاملات و نظریات و عوامل کی وجہ سے وجود میں آئے۔ بہرحال طویل مدت ہوئی یہ فرقہ ناپید ہو گیا اور دوبارہ اس کا ظہور نہ ہوا۔ البتہ انفرادی طور پر کچھ لوگ ایسے نظریات کے ضرور رہے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے جن کا بغض چھپائے نہیں چھپتا۔
۲۔ الرافضہ:....دوسرا گروہ ’’الرافضہ‘‘ ہے جو سیّدنا علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں غلو کرتا ہے اور صحابہ کے درمیان عداوت کو قائم اور نشر کرتا ہے۔ یہ پہلے فرقے کی نسبت زیادہ جھوٹا ہے اور اس فرقے نے جھوٹ سے ایسا جال بُنا کہ جس کے سننے، پڑھنے اور لکھنے سے بھی حیا آتی ہے۔اس تمام صورتِ حال کو ایک عظیم عالم و امام علامہ محب الدین خطیب رحمہ اللہ کی تحریر سے جانا جا سکتا ہے:
’’اے مسلمانو! خبردار ہو جاؤ! بے شک مجرم لوگوں کے ہاتھوں نے سیّدہ عائشہ، سیّدنا علی اور سیّدنا طلحہ و سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہم کے متعلق جھوٹے افسانے تراشے جو اس سارے فتنے کی بنیاد بنے اور انھی جھوٹے افسانوں نے اس فتنے کو شروع سے آخر تک بھڑکانے کا کام کیا اور یہی وہ مجرم ہاتھ ہیں جنھوں نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی زبانی ان کی طرف سے مصر کے گورنر کے نام ایک خط مشہور کیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب مصر میں عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوئی گورنر تھا ہی نہیں ۔ جن ہاتھوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی زبان سے منسوب کر کے یہ خط مشہور کیا، انہی ہاتھوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف ایک خط منسوب کر کے پھیلایا اور یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا گیا تاکہ نام نہاد انقلابی مدینہ منورہ پر ہلہ بول دیں ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ اپنے خلیفہ کے موقف سے مطمئن ہو گئے تھے اور انھیں یقین ہو گیا تھا کہ جو افسانے ان کے متعلق پھیلائے جا رہے ہیں ، وہ سب جھوٹے ہیں اور ہر معاملے میں وہ وہی فیصلہ کرتا ہے جسے وہ حق اور بہتر سمجھتا ہے۔ اس سبائی، یہودی، رافضہ کے پیدا کردہ فتنے کا مقصد صرف خلیفہ ثالث، داماد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جنت کی خوشخبری پانے والے خلیفہ مظلوم سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنا ہی نہ تھا بلکہ وہ سارے اسلام کو ہی بدنام کرنا چاہتے تھے اور وہ اسلامی طاہر و مقدس نسلیں جن کی تاریخ نہایت درخشاں اور ضوء فشاں ہے ان سب کے چہرے داغ دار اور مسخ کرنے کی گھناؤنی سازش بھی ان کے مقصد میں شامل تھی۔‘‘
رافضیوں کے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر شدت طعن و تشنیع کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کا بیشتر حصہ سیکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی عمر میں برکت ڈالی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی تقریباً نصف صدی تک لوگوں کو مسلسل دین حنیف کی تعلیمات سے آگاہ فرماتی رہیں ۔ لوگوں نے ان سے بکثرت دین سیکھا اور ان سے خوب فائدہ اٹھایا۔