کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 169
ان کی وفات سے تمام اہل مدینہ شدید غم میں ڈوب گئے اور عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا: ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے صرف اسے ہی صدمہ پہنچا جس کی وہ ماں تھیں ۔‘‘[1]
جب سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے رونے کی آواز سنی تو انھوں نے اپنی خادمہ کو ادھر بھیجا کہ جا کر دیکھو ان کا کیا ہوا؟ وہ واپس گئی اور بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہیں ۔[2] سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’اللہ اس پر رحم کرے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھیں ، سوائے اس کے باپ کے۔‘‘[3]
ایک روایت میں ہے: ’’اے عائشہ! اس (اللہ تعالیٰ) نے تیری مصیبت ختم کر دی ہے۔ روئے زمین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا، سوائے تمہارے باپ کے۔‘‘ پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی ہوں ۔ ‘‘[4]
سیّدنا ابوہریرہ[5] رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ بقیع والے قبرستان میں پڑھائی اور انھیں بقیع میں دفن کیا گیا۔ اس وقت سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مروان بن حکم مدینہ منورہ کا گورنر تھا لیکن وہ حج پر چلا گیا اور سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنا کر گیا۔[6] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نماز عشاء کے بعد اندھیری رات میں دفن کیا گیا۔ جنازے کے ساتھ جانے والوں کے لیے آگ جلائے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ انھوں نے کپڑے[7] تیل میں ڈبو کر آگ سے روشن کیے تاکہ قبرستان تک ان کا راستہ روشن ہو
[1] الطبقات الکبری، ج ۸، ص: ۷۸۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۸۵۔
[2] قضت: کسی چیز کے کٹنے، تمام ہونے اور جدا ہونے کے معانی میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ ﴾ یعنی اپنی مدت پوری کر لی۔ لغت میں قضی کے متعدد معانی آتے ہیں ۔ (معانی القرآن و اعرابہ للزجاج، ص ۴، ص: ۲۲۲۔ تفسیر راغب اصفہانی، ج ۱، ص: ۳۰۲۔ مشارق الانوار للقاضی عیاض، ج ۲، ص: ۱۸۹۔ لسان العرب لابن منظور، ج ۷، ص: ۲۲۳۔)
[3] مسند ابی داود طیالسی، ج ۳، ص ۱۸۵، حدیث: ۱۷۱۸۔ اس کے حوالے سے۔ حلیۃ الاولیاء، ج ۲، ص: ۴۴۔ بوصیری نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (اتحاف الخیرۃ المہرۃ، ج ۷، ص: ۲۴۸۔)
[4] السنۃ لابن ابی عاصم: ۱۲۳۴۔
[5] ان کا نام مشہور روایت کے مطابق عبدالرحمن بن صخر ہے ابوہریرہ کنیت ہے اور یمن کے قبیلہ بنو دوس سے ہیں ۔ جلیل القدر صحابی ہیں تمام صحابہ سے زیادہ انھیں احادیث یاد تھیں اور اسی طرح انھوں نے کثرت سے روایت کی۔ حافظ حدیث، ثقہ اور مفتی تھے۔ روزوں اور تہجد کے ساتھ مشہور تھے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بحرین کا گورنر بنایا اور کچھ عرصہ تک مدینہ کے گورنر بھی رہے۔ ۵۷ ہجری کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ (الاستیعاب، ج ۲، ص: ۷۰۔ الاصابۃ، ج ۷، ص: ۴۲۵۔)
[6] المستدرک للحاکم، ج ۴، ص: ۵۔ تاریخ الاسلام للذہبی: ۴؍۱۶۴۔
[7] الخرق: پھٹے پرانے کپڑے۔ (جمہرۃ اللغۃ لابن درید، ج ۱، ص: ۵۹۰۔ الصحاح للجوہری، ج ۴، ص: ۱۴۶۸۔