کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 168
جب سیّدنا ابن زبیر رضی ا للہ عنہما آئے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ’’ابن عباس رضی ا للہ عنہما آئے اور میری تعریف کی اور میں چاہتی ہوں کہ میں نسیًا منسیًّا (بھولی بسری) بن جاؤں ۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ سیّدہعائشہ رضی اللہ عنہا کے مرض الموت میں سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے ان کی عیادت کے لیے اجازت طلب کی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہ دی۔ وہ اصرار کرتے رہے۔ بالآخر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں اجازت دے دی۔ سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں آگ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ۔ سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے کہا: اے ام المومنین! بے شک اللہ عزوجل نے آپ کو آگ سے پناہ دے دی ہے۔ آپ سب سے پہلی عورت ہیں ، جن کی براء ت آسمان سے نازل ہوئی۔[2]
ایک روایت میں ہے: بے شک سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں تو ابن عباس رضی ا للہ عنہما ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: آپ اپنے دو سچے پیش رؤوں[3]کے پاس جا رہی ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس۔[4]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب بیمار ہوئیں اور بیماری کے دوران جب بھی ان کا حال پوچھا جاتا تو وہ کہتیں : ’’الحمد للہ خیریت سے ہوں ۔‘‘[5]
جو بھی آپ کی عیادت کے لیے آتا اور وہ انھیں بشارت دیتا تو وہ اس کے جواب میں کہتیں : ’’اے کاش میں ایک پتھر ہوتی اے کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی۔‘‘[6]
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مدینہ نبویہ میں سترہ رمضان المبارک کی رات ۵۷ یا ۵۸ یا ۵۹ ہجری کو فوت ہوئیں ۔ جب سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ا للہ عنہما کی خلافت ابھی جاری تھی۔[7]
[1] صحیح بخاری: ۴۷۵۳۔
[2] فضائل الصحابۃ لاحمد، ج ۲، ص: ۸۷۲۔
[3] الفرط: جو شخص قافلے سے پہلے جا کر قافلے والوں کے آرام کے لیے سامان تیار کرتا ہے اور جگہ صاف کرتا ہے۔ یہاں ثواب اور شفاعت مراد ہے۔ (مقدمۃ فتح الباری یعنی ہدیۃ الساری، ص: ۶۶۔)
[4] اس روایت کی تخریج آگے آ رہی ہے۔
[5] الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۵۔
[6] الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۴۔
[7] الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ۷۸۔ الاستیعاب، ج ۴، ص: ۱۸۵۔۱۸۸۔ المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم لابن الجوزی، ج ۵، ص: ۳۰۳۔ اسد الغابۃ لابن الاثیر، ج ۷، ص: ۱۸۶۔ البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ج ۱۱، ص: ۳۴۲۔ الوافی بالوفیات للصفدی، ج ۱۶، ص: ۳۴۳۔ الاصابۃ، ج ۸، ص: ۲۳۵۔