کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 164
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر چلے گئے، سپاہی انھیں گرفتار نہ کر سکے۔چنانچہ مروان نے پکار کر کہا یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ﴿ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي﴾ (الاحقاف: ۱۷) ’’اور وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا اف ہے تم دونوں کے لیے! کیا تم مجھے دھمکی دیتے ہو۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو پردے کے پیچھے سے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سوائے میری براء ت کے ہمارے بارے میں قرآن میں کچھ نہیں اتارا۔‘‘[1] سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کثرت سے گراں بہا عطیات ان کی خدمت میں بھیجا کرتے۔ عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت نیا لباس[2]نہیں پہنتی تھیں جب تک اپنے لباس میں اتنے پیوند نہ لگا لیتیں کہ اندر باہر ایک ہو جاتا۔[3] ایک دن ان کے پاس معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اسی ہزار درہم آئے۔ لیکن شام تک ان کے پاس ایک درہم بھی نہ رہا۔ سب حاجت مندوں میں بانٹ دئیے۔ انھیں ان کی خادمہ نے کہا کاش آپ ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں ۔ انھوں نے فرمایا: ’’اگر مجھے تو یاد دلاتی تو میں ضرور منگوا دیتی۔‘‘[4] سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ خط و کتابت بھی کرتے اور ہر خط میں نصیحت کرنے کی درخواست کرتے ایک بار یوں لکھا: ’’یہ کہ آپ میری طرف خط لکھیں جو بہت طویل نہ ہو۔‘‘ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا: ’’بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((مَنِ الْتَمَسَ رِضَائَ اللّٰہِ بَسَخَطِ النَّاسِ، کَفَاہُ اللّٰہُ مُؤُوْنَۃَ النَّاسِ، وَ مَنِ الْتَمَسَ رِضَائَ النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ، وَکَّلَہُ اللّٰہُ اِلَی النَّاسِ)) ’’جو اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر دے اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی طرف سے کافی ہو جائے گا اور جو شخص لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دے اللہ تعالیٰ
[1] صحیح بخاری: ۴۸۲۷۔ [2] استجدّ الثوب: نیا لباس خریدنا اور پہننا۔ (تاج العروس للزبیدی، ج ۷، ص: ۴۷۸۔) [3] نکس الشیء: الٹا کرنا۔ بالائی سطح اندر کر دینا یا سر کی جانب نیچے کی طرف کرنا۔ (مختار الصحاح للرازی، ص: ۶۷۹۔) [4] الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج ۸، ص: ۶۷۔ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم، ج ۲، ص: ۴۷۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۸۷۔