کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 163
’’اے اللہ میری امت کا معاملہ جس شخص کے سپرد ہو اور وہ ان پر مشقت ڈالے تو تو بھی اس پر مشقت ڈال اور جس کسی کے سپرد میری امت کا کوئی معاملہ ہوا اور وہ ان سے نرمی کا سلوک کرے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی کر۔‘‘ محمد بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما کے واقعہ کے بعد سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تعلقات میں جو بگاڑ پیدا ہو گیا تھا اسے سنوارنے کے لیے معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سیّدہ عائشہ کے پاس آئے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں وعظ و نصیحت کی۔[1] جو واقعات و حوادث سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ا للہ عنہما کے درمیان بگاڑ کا سبب بنے ان میں سے دوسری مثال: مروان بن حکم[2]2 جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ منورہ کا گورنر بنا اور حسن[3] بن علی رضی ا للہ عنہما کو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں دفنانے کے لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اجازت ملنے کے باوجود مروان نے انھیں وہاں دفن کرنے سے روک دیا۔ تیسری مثال: جب سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ سے اپنے بیٹے یزید کی جانشینی تسلیم کروانے کے لیے مروان کو حکم دیا اس موقع پر مروان اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان جو تلخی ہوئی وہ کچھ یوں ہے کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کی طرف یزید کی جانشینی کے لیے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے خط لکھا۔ جو اس وقت حجاز کا گورنر تھا۔ مروان نے لوگوں کو جمع کیا، ان سے خطاب کیا اور یزید کا تذکرہ کیا اور اس کی بیعت لینے کے لیے لوگوں کو کہا۔ تب اسے سیّدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما نے کہا: کیا تم آل ہرقل اپنی اولاد کے لیے بیعت کروانے کے لیے آئے ہو؟ چنانچہ مروان نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا اسے پکڑ لو۔ وہ
[1] سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص: ۱۸۳-۱۸۷۔ [2] یہ مروان بن حکم بن ابی العاص بن امیہ ہے۔ اس کی کنیت ابو عبدالملک ہے۔ خاندان قریش اور بنو امیہ میں سے ہے۔ یہ ۲ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۴ ہجری کا بھی کہا گیا ہے۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا زاد ہیں اور ان کی خلافت میں ان کے معاون بھی رہے۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں شامل تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینے کے گورنر بنے۔ یزید کی امارت کے ابتدائی عہد میں انھیں ابن زبیر رضی ا للہ عنہما نے جلا وطن کر دیا جو مدینہ میں واقعہ حرہ (قتل عام) کا ایک سبب بنا۔ یہ ۶۵ ہجری میں فوت ہوا۔ (الاستیعاب، ج ۲، ص: ۸۳۔ الاصابۃ، ج ۶، ص: ۲۵۷۔) [3] یہ حسن بن علی رضی ا للہ عنہما ہیں ۔ ابو محمد کنیت ہے۔ خاندان قریش اور قبیلہ بنو ہاشم ہے۔ اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں ۔ ۳ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد محترم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اہل عراق کے پاس چلے گئے۔ جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں تھے انھوں نے جنگ سے گریز کیا اور سیّدنا معاویہ کی بیعت کر لی۔ ۴۹ہجری میں فوت ہوئے۔ (الاستیعاب، ج ۱، ۱۱۳۔ الاصابۃ، ج ۲، ۶۸۔)