کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 162
معاویہ رضی اللہ عنہ کے حمایت یافتہ معاویہ[1] بن حدیج سکونی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ان پر حملہ ہوا۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکر کثیر کے ساتھ انھیں کمک دی۔ جس کے قائد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ تھے۔ سیّدنا محمد بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما کو شکست ہوئی اور وہ معاویہ بن حدیج کے قیدی بن گئے۔ تو انھیں قتل کر دیا گیا اور گدھے کی کھال میں ڈال کر ان کی لاش کو جلا دیا گیا۔ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائی کی مظلومانہ و سفاکانہ شہادت کی خبر ملی تو انھیں بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اپنی نمازوں میں سیّدنا معاویہ اور سیّدنا عمرو بن عاص رضی ا للہ عنہما کے خلاف قنوت کرتی رہیں ۔پھر محمد رحمہ اللہ کے اہل و عیال سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کر دئیے گئے۔ ان میں قاسم[2] بن محمد بن ابی بکر بھی شامل تھے۔[3] معاویہ بن حدیج کے ہاتھوں محمد بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک ہوا سو ہوا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حادثہ حق کہنے سے نہ روک سکا اور وہ یوں کہ جب سیّدہ کو پتا چلا کہ معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ اہل مصر کے ساتھ نہایت فیاضی کا سلوک کر رہے ہیں تو فوراً ان کی تعریف کی چنانچہ جب عبدالرحمن بن شماسہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تو اس سے پوچھا: تو کہاں سے آیا ہے؟ اس نے کہا: میں مصر سے آیا ہوں ۔ انھوں نے پوچھا: تمہارے حکمران کا کیا حال ہے اور تمہارے ساتھ وہ کیسا سلوک کرتا ہے؟ اس نے بتایا: ہمیں اس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ اگر ہم میں سے کسی کا اونٹ مر جائے تو وہ اسے اونٹ دیتا ہے اور اگر کسی کا غلام مر جائے تو اسے غلام دیتا ہے اور جو نان و نفقہ کا محتاج ہو اسے نان و نفقہ دیتا ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو کہنے لگیں : جو کچھ اس نے محمد بن ابی بکر سے کیا ہے وہ مجھے یہ بتانے سے منع نہیں کرتا کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گھر میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ((اَللّٰہُمَّ مَنْ وَلِیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْہِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ، وَ مَنْ وَلِیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِہِمْ فَارْفُقْ بِہٖ))[4]
[1] یہ سیّدنا معاویہ بن حدیج بن جفنہ ابو عبدالرحمن السکونی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں مصر کے گورنر بنے۔ یہ کم عمر صحابی تھے۔ یہ فتح مصر میں شامل تھے۔ فتح اسکندریہ کی بشارت لے کر یہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ یہ جنگ یرموک میں بھی شامل تھے۔ ۵۲ ہجری میں فوت ہوئے۔ (الاستیعاب، ج ۱، ص: ۴۴۳۔ الاصابۃ، ج ۶، ص: ۱۴۷۔) [2] یہ قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ابو محمد ان کی کنیت ہے۔ نسب کے لحاظ سے یہ تیمی ہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی احادیث کے عالم اور ان کے مکثر راوی ہیں ۔ ۱۰۶ ہجری یا اس کے بعد فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج ۵، ص: ۵۳۔ تہذیب التہذیب، ج ۴، ص: ۵۲۵۔) [3] تاریخ ابن جریر الطبری، ج ۳، ص: ۸۳۔ نہایت الارب للنویری: ۲۰؍۱۵۶۔ [4] صحیح مسلم: ۱۸۲۸۔