کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 159
علامہ طبری[1] رحمہ اللہ نے احنف بن قیس[2] سے روایت کی ہے کہ ہم حج کے ارادے سے آئے تو دیکھا کہ لوگ مسجد نبوی کے وسط میں اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ میں سیّدنا طلحہ[3] اور زبیر رضی ا للہ عنہما سے ملا اور میں نے کہا کہ بلاشبہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہو چکے ہیں ۔ اب آپ دونوں صاحبان مجھے کس کی بیعت کا مشورہ دیں گے؟ ان دونوں نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو۔ ہم مکہ پہنچے۔ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملا۔ ہم نے انھیں سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی اور میں نے ان سے پوچھا اب آپ مجھے کس کی اطاعت کا حکم دیں گی؟ انھوں نے فرمایا: تم علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو۔ چنانچہ ہم مدینہ واپس آئے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور میں واپس بصرہ آ گیا۔[4] جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی عام بیعت ہوئی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل میں ان کا وہی احترام باقی رہا۔ بلکہ ان کے متعلق وہ اپنے موقف پر ثابت قدم رہیں ۔ یعنی ان کی بیعت کرنے کی نصیحت کرتی رہیں ۔ ابن ابی شیبہ[5] رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف ’’المصنف فی الاحادیث و الآثار‘‘ میں عمدہ سند کے ساتھ عبدالرحمن بن ابزیٰ[6] رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی جنگ جمل کے
[1] یہ محمد بن جریر بن یزید ابو جعفر طبری ہیں ۔ اپنے وقت کے امام، عالم، مجتہد، مفسر اور بہت بڑے مورخ ہیں ۔ ۲۲۴ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۳۱۰ ہجری میں فوت ہوئے۔ متعدد تالیفات اپنے پیچھے چھوڑ گئے جن میں سے مشہور ’’التفسیر‘‘ اور ’’تاریخ الامم و الملوک‘‘ ہیں ۔ (سیر اعلام النبلاء، ج ۱۴، ص: ۲۶۷۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۱۱، ص: ۱۴۵۔) [2] یہ ضحاک بن قیس بن معاویہ ہیں ابو بحر تمیمی کنیت ہے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا لیکن آپ کو دیکھ نہ سکے۔ جنگ صفین کے روز قائد الجیش تھے۔ فتح مرو الروذ میں شامل تھے۔ ۶۷ ہجری یا اس کے بعد فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج ۷، ص: ۹۳۔ الاصابۃ، ج ۱، ص: ۱۸۷) [3] یہ سیّدنا طلحہ بن عبیداللہ بن عثمان ہیں ابو محمد القرشی التمیمی ان کی کنیت ہے۔ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ عشرہ مبشرہ میں ان کا شمار ہوتا ہے اور سب سے پہلے اسلام لانے والے آٹھ آدمیوں میں شامل ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کے بوقت شہادت بنائی ہوئی چھ آدمیوں کی شوریٰ میں شامل تھے۔ غزوہ احد میں عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ ۳۶ ہجری میں وفات پائی۔ (الاستیعاب، ج ۱، ص: ۲۳۱۔ الاصابۃ، ج ۳، ص: ۵۲۹۔) [4] تاریخ الطبری، ج ۳، ص: ۳۴۔ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری، ج ۱۳، ص: ۳۸) پر اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [5] یہ عبداللہ بن محمد بن ابراہیم ابوبکر ہیں بنو عبس کے مولیٰ ہیں ۔ اپنے وقت کے عالم متبحر اور بیش بہا تصنیفات کے مصنف ہیں ۔ جن میں سے مشہور ترین کتاب ’’المصنف فی الاحادیث و الآثار‘‘ ہے۔ یہ ۲۳۵ ہجری میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلا للذہبی، ج ۲۱، ص: ۱۴۲۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۴، ص: ۲۸۲۔) [6] یہ عبدالرحمن بن ابزیٰ خزاعی ہیں جو بنو خزاعہ کے مولیٰ تھے۔ ان کی صحبت نبوی میں اختلاف ہے۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ صحابی ہیں ۔ یہ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرتے اور علم فرائض کے ماہر تھے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یہ مکہ کے گورنر رہے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یہ خراسان کے گورنر بنے اور جنگ صفین میں یہ انہی کے ساتھ تھے۔ (الاستیعاب، ج ۱، ص: ۲۴۸۔ الاصابۃ، ج ۴، ص: ۲۸۲۔)