کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 156
سے آپ کو کس نے روکا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے بھلا دیا گیا تھا۔[1]
نیز انہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں فرمایا: میرا جی چاہتا ہے کہ میرے پاس میرا ایک صحابی ہو۔ ہم نے کہا: اے رسول اللہ! کیا ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ ہم نے کہا اے رسول اللہ! کیا ہم آپ کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کو بلا لیں ۔ آپ خاموش رہے۔ ہم نے کہا: اے رسول اللہ! کیا ہم آپ کے پاس سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجیں تو آپ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘ پس وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے تنہائی میں گفتگو فرمائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باتیں کرتے جاتے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوتے جاتے تھے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے قیس بن ابی حازم[2] رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خادم ابو سہلہ نے حدیث بیان کی کہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا جس دن شرپسندوں نے محاصرہ کیا اس دن انھوں نے فرمایا: ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے اور میں اسی پر کاربند ہوں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے ’’میں اسی پر صبر کرتے ہوئے قائم رہوں ۔‘‘ قیس نے کہا: لوگ کہتے ہیں اس سے اُسی دن کی وصیت مراد ہے۔[3]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے درمیان یونہی احترام و تقدس کا رشتہ قائم رہا۔ دونوں ایک دوسرے کا خوب لحاظ کرتے۔ بالآخر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے گھر میں ہی ظالمانہ و مفسدانہ محاصرے کے بعد مظلومانہ طور پر شہید کر دیے گئے۔
چنانچہ سب سے پہلے خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی کیا اور یہ کہ ان پر ظلم کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ آئندہ صفحات میں ان شاء اللہ اس کی تفصیل آئے گی۔
اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ اپنی زندگی کی آخری لمحات تک سیّدہ عائشہ سمیت تمام ازواج مطہرات
[1] صحیح سنن ابن ماجہ للالبانی رحمہ اللہ۔
[2] قیس بن ابی حازم: ابو عبداللہ البجلی الاحمسی رحمہ اللہ ۔ ان کے باپ کا نام حسین بن عوف یا کچھ اور تھا اپنے زمانے کے مشہور ثقہ اور حافظ حدیث تھے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کے لیے مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے تھے۔ یہ کوفہ میں اپنے وقت کے مشہور محدث تھے۔ ۹۷ یا ۹۸ ہجری میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۴، ص: ۲۰۱۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۴، ص: ۵۶۱)
[3] سنن ابن ماجہ، حدیث: ۱۱۳۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۵۱، حدیث ۲۴۲۹۸۔ مسند ابی یعلی، ج ۸، ص ۲۳۴، حدیث ۴۸۰۵۔ مستدرک حاکم، ج ۳، ص: ۱۰۶۔ حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا اور شیخین نے اسے روایت نہیں کیا۔ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ میں اسے صحیح کہا ہے۔ الوادعی رحمہ اللہ نے (الصحیح المسند: ۱۶۰۸) پر اسے صحیح کہا ہے اور شعیب ارناؤوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اسے صحیح کہا ہے۔