کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 154
ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر جا کر سلام کیا، پھر اندر جانے کی اجازت طلب کی۔ پھر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی رو رہی ہیں ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں ۔ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے وہ جگہ اپنے لیے پسند کی ہوئی تھی۔ تاہم آج میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اپنے آپ پر[1] ضرور ترجیح دوں گی۔ جب سیّدنا عبداللہ واپس پہنچے تو لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا یہ عبداللہ آ گئے ہیں ۔ وہ کہنے لگے مجھے اٹھاؤ، تو ایک آدمی نے انھیں اپنا سہارا دے کر بٹھایا۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً پوچھا تمہارے پاس کیا خبر ہے؟ انھوں نے جواب دیا: اے امیر المومنین آپ جو چاہتے ہیں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الحمد للہ، میرے لیے اس سے زیادہ کوئی چیز اہم نہ تھی۔ میری روح جب قبض کر لی جائے تو مجھے اٹھا کر چل دینا اور پھر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کہنا اور دوبارہ ان سے اجازت طلب کرنا اور کہنا عمر بن خطاب یہاں دفن ہونے کی اجازت طلب کررہا تھا۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے لحد میں اتارنا اور اگر وہ میری درخواست ردّ کر دیں تو تم مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں لے جانا۔[2] تیسرا نکتہ:.... سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سلطنت اسلامیہ اطراف و اکناف عالم رنگ و بو میں پھیل گئی۔ امت اسلامیہ میں بے شمار قبائل اور قومیں داخل ہوئیں اور لوگ ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم کے کثرت سے محتاج ہو گئے۔ چنانچہ ہر گھاٹی اور ہر نشیب و فراز[3] سے تشنگان علوم شریعہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مدرسۃ القرآن و الحدیث کی طرف امڈ پڑے، گویا عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام و مرتبہ مزید بلند ہو گیا۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ امہات المومنین کے احترام و اہتمام میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کسی طرح کم نہ
[1] عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی ا للہ عنہما ابو عبدالرحمن قریشی، عدوی۔ زہد و ورع میں اپنے زمانہ کے امام تھے۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے سال مکہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہجرت کی صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شریک تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کی انتہائی جانفشانی سے پیروی کرتے اور کثرت سے احادیث روایت کرتے ہیں ۔ مشہور عابد تھے۔ حج و عمرہ کے دلدادہ تھے۔ ۷۳ یا ۷۴ ہجری میں فوت ہوئے۔ (الاستیعاب، ج ۱، ص: ۲۸۹۔ الاصابۃ، ج ۴، ص: ۵۶۴۔) [2] صحیح بخاری: ۱۳۹۲۔ یہ عمرو بن میمون کی روایت ہے۔ [3] الحدب: پتھریلی اور بلند زمین۔ الصوب: سمت و جہت۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، ج ۱، ص: ۳۴۹۔ تاج العروس للزبیری: ج ۳، ص: ۲۱۳۔)