کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 146
بھی دو موتیں نہیں دے گا پھر وہ حجرہ مبارک سے نکل پڑے اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یوں مخاطب کیا: اے قسم اٹھانے والے! جہاں ہو وہیں رک جاؤ۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی وہ وہیں بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد کہا: خبردار! جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ یقیناً زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی:
﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ﴾ (الزمر: ۳۰)
’’بے شک تو مرنے والا ہے اور بے شک وہ بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللّٰهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشَّاكِرِينَ﴾ (آل عمران: ۱۴۴)
’’اور نہیں ہے محمد مگر ایک رسول، بے شک اس سے پہلے کئی رسول گزر چکے تو کیا اگر وہ فوت ہو جائے، یا قتل کر دیا جائے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے اور جو اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔‘‘
تو لوگوں نے آہ و بکا اور گریہ زاری شروع کر دی۔‘‘[2]
ایک روایت میں ہے:
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام ’’السُّنح‘‘ میں اپنی رہائش گاہ سے اپنے گھوڑے پر واپس آئے۔ مسجد کے پاس آ کر گھوڑے سے اترے اور چپ چاپ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ سے چھوا جو کہ ایک منقش اور جھالر دار کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھے۔[3]
[1] یہاں ایک سادہ سا سوال ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جو آیہ مبارکہ پڑھی، اس میں لفظ ’’ میتٌ‘‘ سے کیا مراد تھی؟اور انہوں نے کس کے لیے لفظ ’’میتٌ‘‘ بولا؟ اب اگر کوئی یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئی ہی نہیں یا آپ آج بھی زندہ ہیں ، تو گویا اس کا عقیدہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مختلف ہوا اور اس کے خیال کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیۃمبارکہ غلط مقام پر پڑھی اور اس کی تفہیم میں ٹھوکر کھائی؟(معاذ اللہ)....(قدوسی)
[2] صحیح بخاری: ۳۶۶۷۔
[3] حِبَرَۃٌ: ایسی چادر کو کہتے ہیں جس کے کناروں پر جھالر (حاشیہ) اور اندر دھاریاں ہوں ۔ (غریب الحدیث للخطابی، ج ۲، ص: ۴۳۲)