کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 127
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ شدت محبت کی وجہ سے ان کی دلچسپیوں کا ہمیشہ خیال رکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کھیل میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’میں ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقابلہ میں دوڑنے کے لیے کہا اور چند قدموں میں ہی آپ سے آگے بڑھ گئی پھر جب میں زیادہ گوشت کی وجہ سے بھاری ہو گئی تو آپ کے ساتھ پھر دوڑ کا مقابلہ کیا چنانچہ آپ مجھ سے آگے نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اس دن کا بدلہ ہے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خوشی کے متمنی رہتے اور ان کی محسوسات کی ہمیشہ رعایت کرتے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں :
’’ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کی نیت سے روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام ’’سرف‘‘ پر پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا: ’’تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میری تمنا تو یہ ہے کہ میں اس سال حج نہ کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شاید تیرے ایام شروع ہو گئے ہیں ؟‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ آپ فرمانے لگے: ’’یہ چیز اللہ تعالیٰ نے آدم کی ساری بیٹیوں پر لکھ دی ہے۔[2] تم اسی طرح کرو جیسے حجاج کریں گے سوائے اس کے کہ پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔‘‘[3]
[1] سنن ابی داود: ۲۵۷۸۔ سنن ابن ماجہ: ۱۶۲۳۔ مسند احمد، ج ۶، ص ۳۹، حدیث: ۲۴۱۶۴۔ السنن الکبری للنسائی، ج ۵، ص ۳۰۴، حدیث: ۸۹۴۳۔ صحیح ابن حبان، ج ۱۰، ص ۵۴۵۔ ح: ۴۶۹۱۔ المعجم للطبرانی، ج ۲۳، ص ۴۷، حدیث: ۱۲۵۔ البیہقی، ج ۱۰، ص ۱۷، حدیث: ۲۰۲۵۲۔ اس حدیث کو ابن الملقن نے (البدر المنیر، ج ۹، ص: ۴۲) میں ، العراقی نے (تخریج الاحیاء، ص: ۴۸۲)، البانی رحمہ اللہ نے (صحیح سنن ابی داود) وادعی نے (الصحیح المسند: ۱۶۳۱) میں صحیح کہا ہے۔
[2] علامہ زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : آپ ذرا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایام کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور تو کریں : یعنی ’’یہ چیز اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی سب بیٹیوں پر لکھ دی ہے اور جب صفیہ رضی اللہ عنہا کے ایام شروع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا اس نے ہمیں محبوس کر دیا؟‘‘ دونوں مواقع پر فرق کتنا واضح ہے۔ (الاجابۃ، ص: ۵۲۔ فتح الباری، ج ۳، ص: ۵۸۹) میں دونوں مقامات کی مناسبت تحریر کی گئی ہے۔
[3] صحیح بخاری: ۳۰۵۔ صحیح مسلم: ۱۲۱۱۔