کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 123
چوتھا نکتہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خاص مقام تھا۔ کیونکہ وہ آپ کے سب سے زیادہ جانثار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں ، اسی وجہ سے وہ آپ کو سب بیویوں سے زیادہ محبوب تھیں ۔ آپ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنی محبت خاص کا خود اظہار کرتے تھے اور اسے مخفی نہیں رکھتے تھے۔ یہاں تک کہسیّدنا عمرو بن عاص[1] رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سے سب سے زیادہ کس کے ساتھ محبت کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔‘‘ سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مردوں میں سے (آپ کس سے زیادہ محبت کرتے ہیں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اُس کے باپ (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) سے۔‘‘[2]
فوائد الحدیث:....اس حدیث میں ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عظیم منقبت ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ محبت کرتے تھے۔
چنانچہ سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیاد کون محبوب ہے؟ تو سائل کا یہ اسلوب کہ ((مِنَ النَّاسِ)) سب لوگوں سے زیادہ آپ کو کون محبوب ہے۔ چونکہ اس عموم کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خصوصی تاثیر ہے (سب لوگوں سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فی البدیہہ جواب دیا۔ عائشہ( رضی اللہ عنہا ) سے۔ آپ کے اس مختصر جواب میں ہماری امی جان کی قدر و منزلت کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کے لیے موجود تھی۔ گویا سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مترادف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک لفظ محبت ہے۔
جب سائل نے خود وضاحت کی کہ میرے سوال کا مقصد مردوں میں سے آپ کے محبوب ترین ہستی کے متعلق پوچھنا تھا۔ تو آپ نے ایسے الفاظ کے ساتھ جواب دیا جو ہماری والدہ محترمہ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
[1] سیّدنا عمرو بن عاص بن وائل ابو عبداللہ قرشی رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابیٔ رسول اور فاتح و امیر مصر رہے۔ فتح مکہ سے پہلے آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عمان کا والی بنایا۔ انھوں نے سیّدنا عمر، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم کے لیے کام کیا، یہ شام کے جہاد میں لشکروں کے ایک اہم کمانڈر تھے۔ جنگ صفین میں شامل ہوئے اور صلح کے لیے دو میں سے ایک حکم (ثالث) تھے۔ تقریباً ۴۳ ہجری میں وفات پائی۔ (الاستیعاب، ج ۱، ص۳۶۶۔)
[2] رواہ البخاری: ۳۴۶۲۔ مسلم: ۲۳۸۴۔