کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 122
اچھی عورتیں عطا کر دی ہیں ۔[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں : ’’مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے اتنی رقابت یا غیرت محسوس نہیں ہوئی جتنی غیرت و رقابت مجھے سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے محسوس ہوتی تھی۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ساتھ شادی سے پہلے وہ فوت ہو چکی تھیں ۔ لیکن میں کثرت سے آپ کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے سنتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر کہ اس نے سیّدہ خدیجہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی تھی کہ جنت میں اس کا گھر ایک موتی سے بنا ہوا ہے[2] اور اگر آپ بکری ذبح کرتے تو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں [3] کو ان کی ضرورت کے مطابق گوشت کا تحفہ بھیجتے۔‘‘[4] چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس غیرت کا بنیادی سبب جانتے تھے اس لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اکثر معاملات میں درگزر سے کام لیتے۔ لیکن جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے شرعی حدود سے تجاوز کا امکان ظاہر کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً انھیں مناسب و احسن انداز میں تنبیہ بھی کر دیتے۔ اس بات کی عمدہ مثال سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی صحیح حدیث ہے آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’میں نے ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتنا ہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفیہ کا پست قد ہونا نہیں کِھلتا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَقَدْ قُلْتِ کَلِمَۃً لَوْ مُزِجَتْ بِمَائِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْہُ۔))[5] ’’بے شک تم نے تو اتنی کڑوی بات کہی ہے کہ اگر یہ بات سمندر کے پانی میں مل جائے تو اس کی کڑواہٹ سمندر کے پانی پر غلبہ پا لے۔‘‘
[1] صحیح بخاری: ۳۸۲۱۔ صحیح مسلم: ۲۴۳۷۔ [2] قَصَبًا: کھوکھلا موتی۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر لابن الاثیر، ج ۴، ص: ۶۷۔) [3] خلائلہا: خلیلۃ کی جمع بمعنی ’’سہیلی‘‘۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، ج ۲، ص: ۷۲۔) [4] صحیح بخاری: ۳۸۱۶۔ صحیح مسلم: ۲۴۳۵۔ [5] سنن ابی داؤد: ۴۸۷۵۔ ترمذی: ۲۵۰۲۔ ابن دقیق العید نے اسے (الاقتراح، ص: ۱۱۸۔) پر صحیح کہا اور علامہ شوکانی نے (الفتح الربانی، ج ۱۱، ص ۵۵۹۳۔) پر صحیح کہا اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح سنن ابی داؤد‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے۔