کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 120
قاضی عیاض[1] رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ناراضی کا باعث مذکورہ بالا غیرت ہے جو عورتوں کی فطرت میں داخل ہے اور اسی فطرت کی وجہ سے اکثر احکام میں ان سے درگزر کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اس غیرت سے علیحدہ ہو ہی نہیں سکتیں ۔‘‘
بلکہ امام مالک وغیرہ علمائے مدینہ فرماتے ہیں :
’’اگر بیوی غیرت سے مشتعل ہو کر اپنے خاوند پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر سے حد قذف ساقط ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں :
’’اس دعویٰ کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’غیرت مند عورت وادی کے بالائی اور زیریں کنارے میں تمیز نہیں کرتی۔‘‘[2]
اگر یہ بات نہ ہوتی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جرم نہایت شدید ہوتا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراضی اور ان سے علیحدگی کبیرہ گناہ ہے۔ اسی لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہا: ’’میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی تو نہیں لیتی۔‘‘ یعنی اُن کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ہیبت اسی طرح ہوتی جس طرح خوشی کی صورت میں ہوتی تھی۔ عورتوں میں غیرت کا سبب شدت محبت ہے۔[3]
۹۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’جویریہ بنت حارث بن المصطلق، ثابت بن شماس بن قیس یا اس کے چچا زاد کے حصے میں بطور لونڈی آئی۔ اُس نے اپنی آزادی کی قسطیں مقرر کروا لیں اور وہ نہایت حسین و جمیل دوشیزہ تھی۔ نگاہیں اس پر جم جاتی تھیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] یہ عیاض بن موسیٰ بن عیاض ابو الفضل سبتی مالکی ہیں ۔ امام وقت، حافظ حدیث، شیخ الاسلام ان کے القاب ہیں ۔ ۴۷۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔ وہ سبتہ نامی شہر پھر غرناطہ کے قاضی رہے۔ نہایت عمدہ تصانیف اپنے پیچھے چھوڑی ہیں ۔ ان کی مشہور تصنیف: الشفاء بحقوق شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ وہ ۵۴۶ ہجری میں فوت ہوئے۔ (ازہار الریاض فی اخبار القاضی عیاض، لابی العباس المصری۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲۰، ص: ۱۲۔)
[2] اسے ابو یعلیٰ نے ج ۸، ص: ۱۲۹، (حدیث: ۴۶۷۰) پر روایت کیا ہے۔ البانی رحمہ اللہ نے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، حدیث: ۴۹۶۷۔‘‘ کے تحت ضعیف لکھا۔ (مختصر شدہ، ظفر)
[3] شرح مسلم للنووی، ج ۱۵ ص: ۲۰۳۔