کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 117
کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے۔ میں بھی واپس پلٹ آئی۔آپ تیز تیز چلنے لگے، میں بھی مزید تیز چلنے لگی۔آپ دوڑنے لگے، میں بھی دوڑنے لگی۔ بہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حجرے میں داخل ہو گئی۔ میں ابھی بستر پر لیٹی تھی کہ آپ بھی حجرہ میں داخل ہوئے اور فرمانے لگے: اے عائش! کیا بات ہے ، سانس کیوں پھولا ہوا ہے؟
راوی حدیث: سلیمان کہتا ہے:میرا خیال ہے ، آپ نے ((حَشْیًا)) کہا۔ (اس کو کہتے ہیں جو دَمہ کا مریض ہو اور اس کا سانس آجا رہا ہو)ساتھ ہی آپ نے فرمایا: تم مجھے بتادو، یا مجھے وہ لطیف و خبیر ضرور بتائے گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میں نے آپ کو پوری بات بتا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے آگے جو سایہ تھا وہ تم تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا ،[1] جس سے مجھے درد کا احساس ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ گمان کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہہ دیا: لوگ چاہے جتنا بھی چھپائیں بے شک اللہ تعالیٰ اسے ضرور بتلا دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘[2]
بے شک جب تم نے مجھے دیکھا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور تم نے چونکہ اپنے کپڑے رکھ دیے تھے اس لیے وہ تمہارے سامنے نہ آئے، انھوں نے مجھے پکارا۔ میں نے ان کی پکار پر لبیک کہا، اور اپنی پکار کو تم سے مخفی رکھا۔ میں نے سوچا کہ تم سو چکی ہو گی اور تمھیں جگانا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم ڈر جاؤ گی، جبریل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس آؤں اور ان کے لیے استغفار کروں ۔‘‘ [3]
[1] اللَّہَد:.... سینے میں زور سے دھپا لگانا۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۴، ص: ۴۳۴۔)
[2] امام نووی رحمہ اللہ نے اس ’’ہاں ‘‘ کا قائل سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو قرار دیا ہے کہ جب انھو ں نے اللہ تعالیٰ کے وسعت علم کی گو اہی دی، ساتھ ہی خود کہا: ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ اسی طرح مصادر حدیث میں ہے اور یہی مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ (شرح مسلم للنووی، ج ۷، ص: ۴۴۔) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس جملے کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے استفہامیہ انداز قرار دیا ہے کہ وہ ایسے مسئلے کے بارے میں دریافت کر رہی ہیں جو وہ نہیں جانتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لا علمی کا عذر قبول کیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جی ہاں (نعم) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان قرار دیا۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ج ۱۱، ص: ۴۱۲۔)
[3] صحیح مسلم: ۹۷۴۔