کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 116
کہا: تم خاموش رہو۔‘‘[1]،[2] ۵۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’ ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا، میں نے سوچا کہ شاید آپ اپنی کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں ۔ میں نے آپ کو تلاش کیا ۔ پھر اپنے حجرے کی طرف لوٹ کر آئی تو آپ(مسجد میں ) رکوع یا سجدے میں یوں دُعا کر رہے تھے: (اے اللہ !)میں تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔ تو میں نے اپنے دل میں کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میں کیا سوچ رہی ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو شان ہی نرالی ہے۔‘‘[3] ۶۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انھوں نے کہا: ’’کیا میں تمھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے بارے میں ایک حدیث نہ سناؤں ؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ! انھوں نے بتایا: جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے پاس تھی، آپ مسجد سے واپس آئے تو اپنے جوتے اُتار کر آپ نے اپنے پاؤں کے درمیان رکھ دیے اور اپنی اوڑھنی لی، پھر آہستہ سے دروازہ کھولا اور آپ باہر نکل گئے، پھر اسے آہستہ سے بند کیا۔ میں نے اپنی قمیص پہنی ، سر پر چادر لی اور اپنا تہہ بند باندھا اور آپ کے پیچھے چل پڑی۔ بالآخر آپ بقیع الغرقد (قبرستان اہل مدینہ) میں آئے۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ تین بار بلند کیے اور طویل قیام
[1] صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی سابقہ روایت ۲۵۶۷، ۱۴۷۴ اور یہ روایت ۲۵۶۸، ۱۴۷۴۔ اس طرح جمع ہو سکتی ہیں کہ شہد پینے کے دو واقعات میں سودہ اور عائشہ رضی ا للہ عنہما والا واقعہ پہلے کا ہے اور عائشہ اور حفصہ رضی ا للہ عنہما والا واقعہ بعد کا ہے۔ اگر دونوں طرح کی روایات کا بدقت نظر جائزہ لیا جائے تو شہد پلانے والی سیّدہ زینب بنت جحش والا واقعہ راجح دکھائی دیتا ہے۔ وگرنہ دونوں واقعات صحیحین میں مروی ہیں اور ان میں کوئی بڑا تفاوت نہیں ۔ (فتح الباری، ج ۹، ص: ۳۷۶) [2] صحیح بخاری: ۵۲۶۸۔ صحیح مسلم: ۱۴۷۴۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’اس حدیث سے متعدد مسائل مستفاد ہوتے ہیں : جیسے عورتوں کی جبلت میں اپنے خاوندوں کے بارے میں غیرت راسخ ہوتی ہے اور غیرت کھانے والی اپنی سوکن کے ساتھ جو بھی حیلہ سازی کرے وہ معفو ہے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث پر ترجمۃ الباب یوں قائم کیا ہے:کتاب ترک الحیل....عورت کا اپنے خاوند اور اپنی سوکنوں کے بارے میں کونسا حیلہ مکروہ ہے.... نیز اس حدیث میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقام و مرتبہ کا بھی تذکرہ ہے جو ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تھا۔ حتی کہ ان کی سوکنیں بھی اکثر معاملات میں ان کی اطاعت کرتی تھیں ۔ (فتح الباری، ج ۹، ص: ۳۸۰، ۳۷۶) [3] صحیح مسلم: ۴۸۵۔