کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 115
تھیلی [1]دی تو اس نے اس میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ پلایا۔تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ضرور آپ کے لیے کوئی حیلہ سازی کریں گی۔ تب میں نے سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ تمہارے پاس آنے والے ہیں ، جب آپ تمہارے پاس آجائیں تو تم کہنا: کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ تو وہ تمھیں کہیں گے نہیں ۔ تو تم ان سے کہنا کہ یہ بو کیسی ہے، جو آپ سے آرہی ہے ؟ تو آپ کو بتائیں گے کہ مجھے حفصہ نے کچھ شہد پلایا ہے۔ تو تم کہنا کہ اس کے شہد پر ’’عرفط‘‘[2] نامی درخت کا اثر ہو گیا ہے ۔ میں بھی ایسا ہی کہوں گی اور اے صفیہ تم بھی ایسے ہی کہنا۔
’’سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ، اللہ کی قسم! اسی لمحے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر موجود تھے۔ میں نے چاہا کہ جو معاملہ تم نے میرے سپرد کیا ہے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کر دوں لیکن تمہارے خوف کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی۔‘‘ [3]
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قریب گئے تو سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا:اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ۔ ام المؤمنین نے کہا: تو یہ بو کیسی ہے جو مجھے آپ سے محسوس ہو رہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے۔‘‘ تو اس نے کہا: اس شہد پر عرفط کا اثر ہو گا۔ جب آپ میرے پاس آئے تو میرے ساتھ بھی آپ کا یہی مکالمہ ہوا اور جب صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو وہاں بھی یہی مکالمہ ہوا۔ پھر جب آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اس سے آپ کو نہ پلاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے اس کی خواہش نہیں ۔ ‘‘[4]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’سودہ رضی اللہ عنہا کہتی تھی اللہ کی قسم! ہم نے ان پر حرام کروایا۔ میں نے اسے
[1] العکّۃ:....چمڑے کی تھیلی کو کہتے ہیں ۔اس میں گھی اور شہد ڈالا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاری للعینی ، ج ۱۶، ص: ۱۲۲)
[2] عرفط:.... ایک درخت ہے اور جرست یعنی شہد کی مکھی نے اس درخت کا رس چو س کر شہد میں ملا دیا ہے۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث ، ج ۱، ص: ۲۶۰)
[3] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا: سودہ سمیت اکثر ازواجِ مطہرات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرعوب تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اور لاڈلی ہیں ۔ (فتح الباری ، ج ۹، ص: ۳۸۰۔)
[4] گویا آپ نے متعدد بیویوں کے اظہار نفرت کی وجہ سے انکار کیا۔ (فتح الباری: ۹؍۳۸۰۷۔)