کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 107
امام نووی رحمہ اللہ [1]کہتے ہیں :
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس قدر قربت کی خواہش محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تمتع اور عیش و عشرت کے لیے نہیں تھی اور نہ ہی نفسانی شہوات اور اس کی لذتیں مقصود تھیں جو کہ عموماً لوگوں میں ہوتی ہیں بلکہ یہ مسابقت اخروی معاملات کی وجہ سے ، اور سیّد الاوّلین والآخرین کی قربت کی تمنا، آپ کے ساتھ اس قدر محبت و شیفتگی، آپ کی خدمت، آپ کے ساتھ حسن معاشرت، اور آپ کے ذریعے سے دینی فائدے کے لیے ہوتی تھی۔ نیز آپ کے حقوق کی ادائیگی، آپ کی ضروریات کی تکمیل اور آپ کی موجودگی میں نزول رحمت و وحی کی اُمید کی وجہ سے تھی.... وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘[2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات کی کثرت سے بجا آوری کی وجہ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رمضان کے روزوں کی قضاء آئندہ سال شعبان تک مؤخر کر دیتیں ۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے:
’’مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہوتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشغولیت[3] اور ان کی خدمت کی بجا آوری کی وجہ سے شعبان سے پہلے وہ روزے نہ رکھ سکتی۔‘‘[4]
اور ایک روایت میں ہے: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں شعبان تک وہ ان کی قضا نہیں دے سکتی تھیں ۔‘‘[5]
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’مشغولیت سے ان کی مراد یہ تھی جو انھوں نے دوسری حدیث میں واضح کر دی ہے کہ ’’ وہ روزوں کی قضاء پوری کرنے پر قادر نہ ہوتیں ۔‘‘
[1] یہ ابوزکریا یحییٰ بن شرف بن مری دمشقی ہیں ، شیخ الاسلام ان کا لقب ہے، یہ شافعی المذہب تھے۔ ۶۳۱ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے وقت کے نہایت زاہد، عابد ، صاحب ورع اور سادہ زندگی بسر کرنے والے تھے۔ ان کی مشہور تصنیفات : شرح صحیح مسلم، المجموع شرح المہذب اور روضۃ الطالبین ہیں ۔ انھوں نے ۶۷۶ھ میں وفات پائی۔ (الطبقات الشافعیہ للسبکی، ج ۸، ص: ۳۹۵۔ المنہاج السوی، للسیوطی)
[2] شرح مسلم للنووی، ج ۱۰، ص: ۷۹۔
[3] یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصروفیت روزے رکھنے میں ان کو مانع تھی۔ (شرح مسلم، ج ۸، ص: ۲۲)
[4] صحیح بخاری: ۱۹۵۰۔ صحیح مسلم: ۱۱۴۶۔
[5] صحیح مسلم: ۱۱۴۶۔