کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 106
’’اے آلِ ابی بکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔‘‘ بقول راوی: ہم نے اونٹ اُٹھایا جس پر میں تھی تو ہمیں اس کے نیچے ہار پڑا ہوا مل گیا۔‘‘ [1] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کو دَم کرتی تھیں ۔ چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں : ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال سے کوئی بیمار ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم معوّذات پڑھ کر اسے دَم کرتے۔ تو جب آپ مرض الموت میں بیمار ہوئے تو میں آپ کو دَم کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی۔کیونکہ آپ کے ہاتھ میں بنسبت میرے ہاتھ کے برکت بہت زیادہ تھی۔‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت بہت پسند تھی۔ وہ اپنی باری کے دن میں کسی اور پر ہرگز ایثار نہ کرتیں ۔ چنانچہ معاذہ[3] رحمہا اللّٰہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے: ’’ہم میں سے جس بیوی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ہوتی تو آپ اس سے اجازت لیتے۔ جب یہ نازل ہوئی: ﴿ تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ﴾ (الاحزاب: ۵۱) ’’ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے اور تو جسے بھی طلب کر لے ان عورتوں میں سے جنھیں تو نے الگ کر دیا ہو تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ بقول راویہ:میں نے ان سے پوچھا: تو آپ کیا کہتی تھیں ؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ میں آپ سے کہتی: اے اللہ کے رسول! اگر مجھے یہ اختیار ہوتا تو میں آپ کے بارے میں کسی اور کے لیے ہر گز ایثار نہیں کروں گی۔‘‘ [4]
[1] صحیح بخاری: ۳۳۴۔ صحیح مسلم: ۳۶۷۔ [2] صحیح بخاری: ۴۴۳۹۔ صحیح مسلم: ۲۱۹۲۔ [3] یہ معاذہ بنت عبداللہ العدویہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کی کنیت ام الصہباء البصریہ تھی۔ شریف اور عالم خاتون تھیں ۔ اپنی قوم کے سردار صلہ بن اشیم ضبابی کی بیوی تھیں ۔ نہایت عابدہ و زاہدہ تھیں ۔ کہتے ہیں اپنے خاوند کی وفات کے بعد اپنی وفات تک یہ بستر پر نہ سوئیں ۔ ۸۳ھ میں فوت ہوئیں ۔ (سیر أعلام النبلاء، ج۴، ص: ۵۰۸) [4] صحیح بخاری: ۴۷۸۹۔ صحیح مسلم: ۱۴۷۶۔