کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 105
روایت میں ہے:
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے پٹے[1]بناتی تھیں ۔‘‘[2]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود تکلیف برداشت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کا خیال رکھتی تھیں ۔اس کی عمدہ مثال خیبر سے و اپسی کے دوران اس رات کی ہے جس میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا تھا۔ لشکر والے ان کا ہار تلاش کرنے کی وجہ سے بروقت کوچ نہ کر سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ران پر سر رکھ کر سو گئے۔جب سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حقیقت کا علم ہوا تو وہ آئے اور سیّدہ کے پہلو میں لاٹھی چبھو کر انھیں ڈانٹنے لگے۔ لیکن انھوں نے اپنی جگہ سے اس لیے حرکت نہ کی کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے:
’’ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسفر تھے۔ جب ہم بیدا ء یا ذات الجیش[3] نامی مقام پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے رُک گئے۔ لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رُک گئے۔ مگر وہاں پانی نہیں تھا۔ چنانچہ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور شکایت کی کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ عائشہ نے کیا کیا؟ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھہرا لیا ہے۔جب کہ وہ پانی کے پاس بھی نہیں ، اور ان کے پاس اپنا پانی بھی نہیں ۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رَکھ کر سو رہے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو روک دیا ہے، حالانکہ یہاں پانی نہیں اور نہ ان کے پاس اپنا پانی ہے۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے خوب ڈانٹا اور جو کچھ اللہ نے چاہا انھو ں نے کہہ دیا۔وہ میرے پہلو میں کچوکے لگا رہے تھے۔ میں نے اس لیے حرکت نہ کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ جب صبح ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے تو پانی بالکل نہیں تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ سب لوگوں نے تیمم کیا تو سیّدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ [4]نے کہا:
[1] القلادۃ: .... جو جانوروں کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں ۔ (غریب الحدیث للہروی، ج ۲،ص: ۸۹۲۔ لسان العرب، ج ۱۱، ص: ۵۱۴)
[2] صحیح بخاری : ۱۷۰۳۔ صحیح مسلم : ۱۳۲۱۔
[3] البیداء و ذات الجیش: .... مدینہ منورہ اور خیبر کے درمیان دو مقامات ہیں ۔ (شرح مسلم للنووی، ج ۴، ص: ۵۹)
[4] یہ اُسید بن حضیر ابو یحییٰ الانصاری، الاشہلی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اسلام لانے والے سابقین میں سے ہیں ۔ یہ عقبہ کی رات میں ایک نقیب تھے۔ غزوۂ اُحد کے دن کفار کی یلغار کے وقت یہ بھی ثابت قدم رہنے والوں میں سے تھے۔ یہ صاحب فہم و عقل ورائے تھے۔ ۲۰ ھ یا ۲۱ ھ میں وفات پائی۔ (الاستیعاب، ج۱، ص: ۳۰۔ الإصابۃ ، ج ۱، ص: ۸۳)