کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 100
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرۂ مبارکہ مسجد نبوی کے مشرقی جانب تھا اور اس کا دروازہ مسجد نبوی کے اندر مغربی جانب کھلتا تھا۔ گویا مسجد نبوی ان کے گھر کا صحن بن گئی تھی۔ کمرہ کی چوڑائی چھ یا سات فٹ تھی۔ جس کی دیواریں پتھروں سے بنائی گئی تھیں اور اس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی تھی۔ چھت اتنی پست تھی کہ جو بھی کھڑا ہوتا اس کا سر اسے چھو لیتا۔ بارش سے بچاؤ کے لیے بالوں سے بنے ہوئے چیتھڑوں سے ڈھانپی گئی تھی۔‘‘ [1]
مسجد کے دروازے کا ایک ہی طاق تھاجو عرعر[2] یا ساگو ان کی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس حجرے کی ایک جانب سائبان تھا۔ [3] (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی بیویوں سے ایلاء کیا تھا تو ایک ماہ تک اسی سائبان میں ٹھہرے تھے۔ ) [4]
یہی وہ حجرۂ مبارکہ تھا جس میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تقریباً پچاس سال بسر کیے۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گزر بسر:
ہم نے ذیل میں چند احادیث جمع کر دی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات و امہات المؤمنین کی گزر بسر کی تفاصیل پر مشتمل ہیں ، انھی میں سے ایک سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں ۔
۱۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھانجے عروہ کو اپنی گزر بسر کے احوال بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان کا معمول تھا: ’’اے میرے بھانجے!بے شک ہم ایک ماہ کا چاند دیکھتے ، پھر دوسرا چاند دیکھتے، پھر دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گھر میں آگ نہیں جلتی تھی۔ (بقول عروہ ) تب میں نے عرض کیا:اے خالہ جان!آپ لوگ کس چیز پر گزر بسر کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: دو سیاہ چیزوں پر۔ کھجور اور پانی۔ ہاں ، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
[1] قصر الامل لابن ابی الدنیا، ص: ۱۶۲۔ البدایۃ والنہایۃ، ج۴، ص: ۵۴۵۔ وسیرۃ السیّدہ عائشہ للندوی، ص: ۷۱۔
[2] صنوبر کی کچھ اقسام کے نام ہیں جو گھریلو فرنیچر میں استعمال ہوتی ہیں ، اس لکڑی کی متعدد اقسام ہیں ۔یہ ایک بڑے درخت کو کہتے ہیں جو لمبائی اور چوڑائی میں پھیلا ہوتا ہے اور اس کے پتے بڑے بڑے ہوتے ہیں ۔ (المعجم الوسیط للطبرانی، ص: ۴۶۰، ۵۹۵۔ الادب المفرد للبخاری، حدیث: ۷۷۶۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الادب المفرد میں حدیث نمبر ۵۹۷ کے تحت اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔)
[3] مشربہ:.... بلند کمرہ، بالاخانہ۔ (فتح الباری، ج۱، ص: ۴۸۸۔
[4] صحیح بخاری: ۱۹۱۱۔