کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 95
اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔‘‘
اور یہ بات نہ بھولو کہ:
( وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا )
]سورہ نساء:125 [
یعنی: ’’اس شخص سے کس کا دین بہتر ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے سامنے اپنا سر خم کردیا ہو۔ اور وہ ہو بھی نیک اور اس نے ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کی پیروی کی ہو اور ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا۔ ‘‘
یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ سب اتنا تو ضرور جانتے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام مشرک نہ تھے، ان کا دین سچا دین تھا، مگر پھر بھی اس دین سے انحراف کرتے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اتنے صاف شفاف اور واضع دین سے انحراف صرف ایسا شخص ہی کر سکتا ہے، جو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہو، ورنہ حق واضح ہے اور سچائی اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ جھلملا رہی ہے کہ تمام صفات جمیلہ کا حامل دین حنیف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے، ان کی تصدیق ان کی کتب بھی کر رہی ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ۔ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ۔ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ )
]سورہ بقرہ:130 تا 132 [
یعنی:’’ ملت ابراہیم علیہ السلام سے تو وہی نفرت کرسکتا ہے جس نے خود اپنے آپ کو احمق بنا لیا ہو بیشک ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں منتخب کرلیا اور وہ آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہو نگے یقیناً جب ان کے رب نے فرمایا کہ