کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 94
اور وہ تمہارے دین پر کیسے ہو سکتے ہیں، اس سے بڑھ کر تمہیں تو ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حسب و نسب کے لحاظ سے بھی قرابت جگانے کا کوئی حق نھیں ہے، کیونکہ تم نے اس کی لاج ہی نہیں رکھی کہ اس کے دین کے متبع بن جاؤ اور جس خدا سپردگی کی وجہ سے انہیں یہ عزت و شرف حاصل ہوا ہے، تم اس کو اپنے اندر پیدا کر سکو بلکہ ان کے قریب تر تو وہی لوگ ہیں جو عقائد و اعمال کے لحاظ سے ان کے پیروکار ہیں اور انہوں نے ان کی ایک ایک ادا کو اپنایا اور ایک ایک حکم کو ماتھے کا جھومر سمجھا جو کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہی شرک سے بیزار اور اللہ کے دشمنوں سے برسر پیکار رہے ہیں، انہیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ) ]سورہ آل عمران:68 [ یعنی: ’’بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام سے قریب تر وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس پر ایمان لانے والے اور اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر ہے۔‘‘ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ابراہیم علیہ السلام کے قریب تر اس لیے تھے کہ انہوں نے ان کے دین کی اتباع کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم علیہ السلام میرے دین پر تھے، بلکہ فرمایا کہ میں ابراہیم علیہ السلام کے دین پر چل کر صراط مستقیم پاگیا ہوں۔ (واہ کیا اطاعت شعاری اور وفا کشی ہے) جبکہ تم کہتے ہو کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے یا عیسائی تھے یہ کہنا گوارہ نہیں کرتے کہ ہم ان کے اسی دین کی اتباع کرلیں جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں جنکی تصدیق ہماری کتابیں کر رہی ہیں۔ فرمایا: ( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) ]سورہ انعام:161 [ یعنی:’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھی راہ دکھائی ہے یہی وہ مستحکم دین ہے جو ابراہیم علیہ السلام کا طریق زندگی تھا