کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 93
تَعْلَمُونَ ) ]سورہ آل عمران:65 تا 66 [
یعنی: ’’اے اہل کتاب! تم آپس میں ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو نازل ہی ان کے بعد ہوئی تھیں کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں؟ پھر تم وہی ہو کہ ان باتوں میں ہٹ دھرمی کرتے ہوئے جھگڑتے ہو جن کے بارے میں تمہیں علم ہے پس تم ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں علم نہیں؟ انہیں اللہ ہی جانتا ہے۔‘‘
یعنی ایسی باتوں میں تو تمہارا جھگڑا کرنا کسی حد تک قابل فہم ہے، جن کا تمہیں کچھ علم ہے، یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو تورات اور انجیل میں بشارت دی گئی ہے وغیرہ۔ مگر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نہ دیکھا، نہ ان کا زمانہ پایا اور نہ ہی ان کی تعلیمات سے آگاہ ہوئے، پھر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ یہودی یا نصرانی تھے؟
یاد رکھو!
( مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) ]سورہ آل عمران:67 [
یعنی:’’ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی تھی بلکہ سب سے ہٹ کر اللہ ہی کا حکم ماننے والے تھے اور نہ ہی وہ مشرک تھے۔‘‘
یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام خالصتاً اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے والے تھے، کسی طاغوتی طاقت کے آگے ہرگز نہ جھکتے، وہ خالص موحد تھے، مشرک بلکل نہیں تھے، جب کہ تم دونوں مشرک ہو، یہود عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور عیسائی، عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور تین خداؤں میں تیسرا خدا کہہ دیتے ہیں اور تم اللہ کے بھی احکام بجا نہیں لاتے، کتاب اللہ کو پس پشت ڈال رکھا ہے، جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کے ایک ایک حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے تھے، تم تحریف کرتے ہو، شرک کرتے ہو، پھر کیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے متبع کہلا سکتے ہو