کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 90
نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔‘‘
البتہ باقی احکام یا تعمیرِ انسانیت کی اخلاقی تعلیمات میں وقت اور ضرورت کے لحاظ سے معمولی معمولی فرق ضرور رہا ہے ورنہ اکثر و بیشتر مسائل میں اشتراک و یکسانیت رہی دراصل شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے اس کے رسولوں پر نازل ہوتی ہے، یہ کوئی انسانی قوانین نہیں کہ جن میں آئے روز تغییر و تبدیل ہوتا رہتا ہے اور ان پر قناعت جملہ بنی نوع انسان کے بس کی بات نہیں ہے لہٰذا وہ تعلیمات جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام لے کر آئے تھے ایک جامع شریعت تھی جس کو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برقرار رکھا گیا۔ لہٰذا ہم قرآن کریم سے صحف ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے شریعت ابراہیمی کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں جس میں عقیدہ آخرت کا تصور اور توحید کا درس ملتا ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
( أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى ۔ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى ۔ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ۔ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى ۔ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَ۔ وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى ۔ وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى۔ وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا۔ أَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى۔ مِنْ نُطْفَةٍ إِذَا تُمْنَى۔ وَأَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَى ۔ وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَى وَأَقْنَى ۔ وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى ۔ وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَى ۔ وَثَمُودَ فَمَا أَبْقَى ۔ وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ إِنَّهُمْ كَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَى ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ۔ فَغَشَّاهَا مَا غَشَّى ۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَى ) ]سورہ نجم:36 تا 55 [
یعنی: ’’کیا ایسے انسان کو اس کی خبر نہیں دی گئی جو موسی علیہ السلام اور وفادار ابراہیم علیہ السلام کے صحائف میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی اس نے خود کوشش کی اور یہ کہ بے شک