کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 86
إِمَامًا ) ]سورہ بقره :124 [ یعنی: ’’ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو وہ پورے اترے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں‘‘ [1]ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ - شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ - وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ) ]سورہ نحل :120 تا 122 [ یعنی: ’’ بلا شبہ ابرہیم علیہ السلام پیشوا تھے، اللہ تعالیٰ کے فرما نبردار اور یک طرفہ مخلص تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ بنا لیا اور انہیں راہِ راست سمجھا دی اور اسے دنیا میں بھی بھلائی دے دی اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہوں گے۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا ) ]سورہ احزاب :7 [
[1] ) امامت کے درجے کو درجہ ٔ نبوت سے بلند سمجھنے کا عقیدہ رکھنے والے اہل تشییع اسی آیتِ کریمہ کو اپنے دعوی پر حجت بناتے ہوئے کہتے ہیں: دیکھو! سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نبوت پہلے مل چکی تھی اور اب اللہ تعالیٰ انھیں لوگوں کے لئے امام بنا رہے ہیں، لہٰذا امامت کا درجہ نبوت سے بھی بلند ہے۔ ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس اس آیتِ کریمہ سے یہ تو ثابت ہو سکتا ہے کہ نبوت اور امامت میں فرق ہے، مگر یہ ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا کہ امامت کا درجہ نبوت سے بلند ہے، دوسری بات یہ کہ بلا تفاق ہر نبی قوم کا امام بھی ہوتا ہے تو پھر ایک مطلق امام کی امامت ایک نبی سے کس طرح بلند ہو سکتی ہے۔ مزید برآں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے ان کی امامت کا منصب قیامت تک ان کی نسل میں جاری رہے گا، اس دعا کی روشنی میں بیت اللہ کے امام آپ علیہ السلام کی ذریعت سے ہی ہیں تو پھر احبابِ تشیع ان کے نظریات وعقائد اور ان کی امامت سے موافقت کیوں نہیں کرتے؟