کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 85
عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ ) ]سورہ هود :76 [
اسی طرح یہ بھی ایمان ہونا چاہیے کہ فرشتے علم غیب نہیں جانتے ورنہ جب سیّدنا ابراہیم علیہ السلام بچھڑا ذبح کرنے کے لیےگھر جا رہے تھے تو فرشتے انہیں منع کر دیتے۔
…………………………
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مناقبِ عالیہ
انبیاء و رسل علیہم السلام کی سیرت کامل و اکمل اور لازوال و بے مثال ہوا کرتی ہے، یہ معصوم عن الخطا نفوس قدسیہ ہوا کرتے ہیں، ادباء، خطباء، واعظین، مقررین، مصنفین اور صحافی حضرات ان کی سیرت کما حقہ ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لیے کہ ان کے اقوال و افعال، حرکات و سکنات، ادائیں، وفائیں اور دعائیں، شریعت الہٰی کا عکس ہوا کرتی ہیں، اسی لئے انبیاء کی سیرت منانے کی چیز نہیں بلکہ اپنانے کی چیز ہوا کرتی ہے، لہٰذا انبیاء کی شریعت و سیرت ہی ان کے فضائل ومناقب کے لئے بس ہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کی پائندگی و درخشندگی کا اندازہ مندرجہ ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے:
ان کا تذکرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود قرآن مجید میں تفصیل سے موجود ہے، انہیں ملت حنیفی کا تاج ملا، جس ملت کے دعویدار قیامت کے دن تک آنے والے لوگ ہیں، جنہیں جہانوں کی امامت ملی، رب کی خلت ملی، جنھیں "خیرالبریہ" کہا گیا، جنہیں وفادار کہا گیا، جنہیں بہت سچا کہا گیا، جن کو ’’امةَ قانتاَ‘‘ کہا گیا، جن کو دنیا اور آخرت میں بھلائی کا وارث کہا گیا اور جدالانبیا بنایا گیا، جن کا ذکر تاقیامت بنی نوع انسان میں زندہ رکھا گیا، ان کی فضیلت پر دلالت کناں چند آیات و احادیث کا مطالعہ کر لینا ضروری ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ