کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 84
یعنی: ’’جب ابراہیم علیہ السلام کا خوف اور ڈر جاتا رہا اور خوشخبری بھی اس کے پاس پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگا، یقیناً ابراہیم علیہ السلام بہت ہی تحمل والے نرم دل اور اللہ کی جانب جھکنے والے تھے، اے ابراھیم! اس خیال کو چھوڑ دیجیئے، آپ کے رب کا حکم آپہنچا ہے اور ان پر نہ ٹالا جانے والا عذاب ضرور آ کر رہے گا۔‘‘ اس کے بعد جو کچھ قوم لوط کے ساتھ ہوا، اس کی تفصیل بیان کرنا یہاں مقصود نہیں حسب ضرورت سورہ ہود اور سورہ حجر میں پڑھ سکتے ہیں۔ سیدنا اسحاق علیہ السلام کو آپ علیہ السلام نے اپنے ہاں حبرون میں ہی رکھا، وہیں اس کی اولاد ہوئی اور ان سے یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے، دونوں کو نبوت ملی اور یعقوب علیہ السلام سے اسرائیل کے بارہ قبیلے بنے۔ عمل: عقیدے کی لطیف بات سیرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلقہ مذکورہ بالا آیات کے حوالہ سے فرشتوں پر ایمان یہ ہے کہ ان اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق مانا جائے اور یہ ایمان ہونا چاہیے کہ یہ نوری مخلوق کھانے پینے اورشادی بیاہ کے محتاج نہیں ہوتے، خواہ وہ انسانی لبادے میں بھی آجائیں، فرشتوں پر ایمان کے لحاظ سے یہ بات بھی یاد رہے کہ جو انسان دنیا میں رہے بسے کھائے پیئے، نوری نہیں ہوسکتا، لہٰذا کسی نبی کے متعلق یہ کہنا کہ فلاں ہے تو نوری مگر آیا انسانی لبادے میں ہے یہ نہ صرف فرشتوں پر ایمان لانے کے منافی ہے بلکہ ایک بشر کی بشریت سے بھی انکار ہے، اسی طرح فرشتوں پر ایمان کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اختیارات سے لاچار اللہ کے حکم کے پابند اور تابع ہیں اس کی نافرمانی نہیں کرتے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اصرار کے باوجود انہوں نے کہا: ( يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ