کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 83
کی امید لگائی جائے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
( وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ) ]سورہ حجر :56 [
یعنی: ’’اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہو سکتے ہیں۔‘‘
سچ پوچھیے! جب یاس و امید کے گہرے بادل چھا جائیں اور رجاء و امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی ہو، تو رحمتِ خداوندی ایک صادق مومن اور کامل مسلمان کے لئے بہترین سہارا ہوتی ہے۔ ساری خدائی مایوس ہوجائے، بھلا وہ کب مایوس ہونے لگا۔ ؟
عمل: علم غائب صرف اللہ کے پاس ہے
مذکورہ بیان سے یہ معلوم ہوا کہ اگر آپ علیہ السلام علم غائب جانتے ہوتے تو بچھڑا بھون کر نہ لاتے، بلکہ پتہ ہوتا کہ یہ تو فرشتے ہیں۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ کوئی نوری اگر انسانی شکل میں بھی آ جاۓ تو بھی وہ کھانا پینا اور دیگر تمام بشری صفت سے بالا تر ھوتا ہے، اگر آپ علیہ السلام کو علم ہوتا تو فرشتوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہ رہتی کہ ہم فرشتے ہیں اور قوم لوط علیہ سلام کی طرف آئے ہیں۔ اور ہم آپ کو بچے کی خوشخبری دیتے ہیں، کیونکہ خوشخبری تو اسے دی جاتی ہے جسے پہلے علم نہ ہو۔ اسی طرح اگر آپ علیہ السلام کو علم ہوتا کہ میرا بیٹا اسماعیل علیہ السلام ذبح ہی نہ ہوگا بلکہ اس کی جگہ دنبہ آجائے گا تو پھر یہ آزمائش آزمائش ہی نہ رہتی۔ بلکہ یہ تو ایک مذاق ہوجاتا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ درخشاں بابِ سیرت بے معنی سا لگنے لگتا۔
…………………………
اب ابراہیم علیہ السلام کا ڈر اور خوف جاتا رہا تو سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کی خیرخواہی آپ علیہ السلام کو بے کل کرتی ہے، بڑی تڑپ سے بات کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
( فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ - إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ - يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ ) ]سورہ هود :74 تا 76 [