کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 82
ہے کیونکہ وہ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
( وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ) ]سورہ اعراف :156 [
یعنی:’’ میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔‘‘
اب بھلا اس شخص کی گمراہی اور مشرک ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت پر قناعت نہیں کرتا اور غیروں کی رحمت کی امیدیں اپنے لئے کافی سمجھتا ہے۔ جن کے پاس رحمت کے خزانوں میں سے کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
( أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ ) ]سورہ ص :9 [
یعنی: ’’کیا ان کے پاس تیرے غالب، سب کچھ دینے والے رب کے خزانے ہیں؟ ‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
( قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا) ]سورہ اسرآء :100 [
یعنی: ’’آپ فرما دیں! کہ اگر تمہارے پاس میرے رب کی رحمت کے خزانے بھی ہوتے تو تم ان کے ختم ہو جانے کے ڈر سے انہیں روک روک کر رکھتے‘‘
معلوم ہوا کہ کسی کے پاس بھی رحمت کے خزانے نہیں ہیں اگر ہوتے تو بھی کوئی کسی کو نہ دیتا۔ مگر وہ اللہ جس کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور خود آوازیں دے دے کر بلا رہا ہے کہ میری رحمت سمیٹ لو، میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ پھر بھی اس کی رحمت پر توکل نہ کرنا غیروں کے در سے رحمتیں حاصل کرنے کی امید رکھنا گمراہی اور شرک نہیں تو اور کیا ہے؟
یہی تقاضا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پرزور الفاظ کا ہے کہ صرف اللہ سے ہی رحمتوں