کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 81
( قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ (72) قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ) ]سورہ هود :73، 72 [ یعنی: ’’وہ کہنے لگی: ’’ہائے میری کمبختی میرے ہاں اولاد کیسے ہو سکتی ہے، میں خود بڑھیا ہوں اور میرے خاوند بھی بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، یہ تو یقیناً بڑی عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا: کیا آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہیں، اے گھر والو! تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، بے شک اللہ تعالیٰ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔‘‘ عمل: ہمیشہ رحمت الہٰی سے پر امید رہنا چاہیے سیرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے معلوم ہوا کہ رب کی رحمت سے مایوس ہونا گمراہی ہے، بلکہ کفر ہے، رب تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کا انکار ہے۔ مزید براں لوگوں پر امیدیں وابستہ رکھنا، ان کی رحمت کا اعتقاد رکھنا شرک بھی ہے۔ آج کتنے ہی لوگ ہیں کہ مخلوق میں سے بعض اولیاء یا پیر وغیرہ پر مکمل بھروسہ اور ان کی رحمت کی امیدیں رکھتے ہیں۔ مگر ربِ کیبریا کی لا محدود رحمت پر نہ ہی قناعت ہے اور نہ ہی بھروسہ۔ یہ لوگ صریح شرک کر رہے ہیں۔ غیروں سے تجھ کو امیدیں رب سے نا امیدی بتا تو سہی ……………………….. اور کافری کیا ہے کیا انہیں رب کی رحمت کم نظر آتی ہے؟ وہ اللہ جو علی الاعلان فرما رہا ہے۔ ( قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) ]سورہ زمر :53 [ یعنی: ’’فرما دیں کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا