کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 79
تو ضرورت نہیں ہے نا ؟ وہ مہمان بیچارا جواب میں نہیں ہی کہتا ہے اور تعجب یہ کہ ہم مجبوراً کھانا کھلا بیٹھیں تو بھی یہ نہیں کہتے کہ چلو اللہ اجر دے گا، بلکہ بسا اوقات گھر میں تبصرہ و تنقید شروع ہوجاتی ہے اور مہمان کی غیبت کی جاتی ہے۔ نیز ہم اپنے واقف کار کو ہی مہمان مانتے ہیں نا واقف انسان کی تو بلکل ضیافت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے، جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرشتوں کو ناواقف انسان جاننے کے باوجود اتنی پرتکلف مہمانی کر رہے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ وہ فرشتے نکلے جنہوں نے کچھ بھی نہ کھایا:
……………………
قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ہے کہ آپ علیہ السلام نے ان سے پوچھ بھی لیا:
( فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ) ]سورہ زاريات :27 [
یعنی: ’’کھانا ان کے قریب کیا اور کہا کہ کیوں نہیں کھاتے۔‘‘
سیدنا خلیل علیہ السلام نے دیکھا کہ ابھی بھی کھانا نہیں کھا رہے، تو کہا:
( قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ) قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ ۔ قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ ۔ قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ۔ قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ۔ قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ ۔ قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ ۔ إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ ۔ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ ) ]سورہ حجر :52 تا 60 [
یعنی: ’’آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ہمیں تم سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’ ڈرو نہیں، ہم تمہیں ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں ‘‘آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’کیا اس بڑھاپے کے آجانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو؟ ‘تم یہ خوشخبری کیسے دے رہے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہم آپ کو بالکل سچی خوشخبری سناتے ہیں، آپ مایوس نہ ہوں‘‘ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’رب کی رحمت سے تو