کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 78
چنانچہ سورہ زاریات میں اس واقعہ کی ابتداء کرتے وقت فرمایا:
( هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ ) ]سورہ زاريات :24 [
یعنی: ’’کیا آپ کے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے؟‘‘
اور سورہ حجر میں ان الفاظ سے اس واقعہ کی ابتداء ہوتی ہے:
( وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ ) ]سورہ حجر :51 [
یعنی: ’’ان کو ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر سنا دو ۔‘‘
اور سورہ ھود میں فرمایا گیا:
( وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ۔ فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ) ]سورہ هود :70، 69 [
یعنی: ’’ ہمارے فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس خوشخبری لے کر آئے اور سلام کہا آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا اور بغیر کسی تاخیر کے بھونا ہوا (موٹا)بچھڑا لے آئے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ تو اس کی طرف نہیں پہنچے (یعنی وہ کھانا نہیں کھا رہے) تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے ڈرنے لگے۔‘‘
عمل: مہمان نوازی کا ایمان جذبہ
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا یہ پہلو اس بات کا متقاضی ہے کہ مہمان نوازی میں تساہل سے کام نہ لیا جائے، بلکہ حسب استطاعت نیکی کے جذبے سے مہمانی کا حق ادا کرنا چاہیے، جب کہ آج ہم اس سعادت سے محروم رہنے کی کوشش کرتے ہیں، مہمان کے آنے پر اول تو ہم چھپنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر چارونا چار پھنس جائیں تو پوچھتے ہیں کہ ٹھنڈا پیو گے یا گرم؟ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساتھ ہی پوچھ لیتے ہیں کہ واپس کب جاؤ گے اور کبھی ایسے بھی داد مہمانی لی جاتی ہے کہ بھائی کھانے کے بعد چائے کی