کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 77
ِحجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ) ]سورہ آل عمران:96، 97 [
یعنی: ’’بیشک اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کیلئے بنایا گیا تھا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے، جو تمام دنیا کیلئے برکت و ہدایت والا ہے، جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، جو بھی اس میں آ جائے وہ امن وامان والا ہو جاتاہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی راہ پا سکتے ہیں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہےاور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ تمام دنیا سے بے پرواہے۔‘‘
ولادتِ اسحاق علیہ السلام کی نویدِ سعید
سیدہ سارہ علیھا السلام بھی یاس و امید میں کھوئی ہوئی بچے کی پیدائش کے خواب دیکھ رہی ہیں، ادھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام تقریباً سو برس کو پہنچ چکے ہیں اور جسمانی طور پر بھی کمزور ہو چکے ہیں۔
جب اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے دریغ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری آن پہنچی ہے، ادھر سدوم میں سیدنا لوط علیہ السلام قوم پر ہر ممکن طریقے سے تبلیغ کے ہنر آزما چکے ہیں، قوم شرک کے ساتھ ساتھ اغلام بازی جیسے قبیح اور کبیرہ گناہ میں ایسی بری طرح رچ چکی ہے کہ رب کا خوف ان کے قریب تک نہیں پھٹکتا، بالآخر دنیا و آخرت میں عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں، چنانچہ جو فرشتے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس انسانی شکل میں سیدنا اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری لاتے ہیں، وہی فرشتے وہاں سے آگے لوط علیہ السلام کے پاس قوم کے لئے خوبصورت بچوں کی شکل میں آ جاتے ہیں۔
اس لیے اسحاق علیہ سلام کی خوشخبری اور قوم لوط کی تباہی کا واقعہ دونوں ایک ساتھ قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں اور یہ تین صورتوں (ہود، حجر اور زاریات) میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔