کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 73
إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ - وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ) ]سورہ بقرہ :124 تا 126 [ یعنی: ’’ جب ابرہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے کئی امتحانوں میں آزمایا تو انہوں نے انہیں پورا کیا، اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ: ’’ میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں‘‘ عرض کرنے لگے : اور میری اولاد میں سے بھی، فرمابا: میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کیلئے ثواب اور امن وامان کی جگہ بنایا، تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو، ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسما عيل علیہ السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف کرو۔ اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا: اے ہمارے پروردگار! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا، یہاں کے باشندوں کو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں، پھلوں کی روزیاں دے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا، پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بے بس کروں گا اور یہ لوٹ کے جانے کی بڑی بری جگہ ہے۔‘‘ عمل: مسجدوں کی صفائی سیرت ابراہیم علیہ السلام کا عملی پہلو ہے مساجد کی صفائی رکھنا پیغمبرانہ منصب ہے اور ان کی صفائی ستھرائی کے درجات بہت ہیں، یاد رہے کہ صفائی سے مراد ظاہری صفائی نہیں بلکہ شرک ہوا بدعت اور معصیت کی صفائی بھی مراد ہے یعنی وہاں شرک کو جگہ نہ دی جائے، شرک کا کوئی کام نہ ہونے دیا جائے، اور وہاں صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور کسی دوسرے کی عبادت نہ کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: