کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 70
’’اے ابا جان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے، انشااللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘ جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس ( باپ) نے اس کو پیشانی کے بل لیٹا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں۔ در حقیقت یہ ایک کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا، ابراہیم پر سلام ہو، ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں تھا۔‘‘
عمل: نیکی کے کاموں میں اولاد سے مشاورت
یہ بات تو درست ہے کہ والد سر پرست ہونے کی حیثیت سے تمام معاملات میں بااختیار ہے مگر اپنی اولاد پر ہمیشہ جبراً حکم تسلط کرتے رہنا حکمت سے خالی عمل ہے۔ دنیاوی امور میں بھی اولاد سے مشورہ کرنا ان کی حوصلہ افزائی اور باپ بیٹا کی ذہنی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے نیز انسان غلطیوں کے امکانات سے بھی بچ نکلتا ہے جبکہ دینی امور میں اولاد سے مشورہ کرنا تو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راز ہے کیونکہ اس طرح اولاد بھی نیکیاں اور ثواب سمیٹنے میں شامل ہو جاتی ہے، یہی حکمت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مدنظر رکھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اسماعیل علیہ السلام کو میرے رستہ میں ذبح کردیں تو آپ علیہ السلام نے بیٹے سے مشورہ لیا تاکہ بیٹا بھی اقرار کر کے اتنے عظیم نیک عمل کے ثواب میں شریک ہوجائے۔
……………………
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
مکہ مکرمہ میں رب تعالیٰ کے بیعت عتیق نشانات موجود تھے، اس کی تعمیر نو کیلئے