کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 68
دعائیں کرنی چاہییں۔ مگر ایسی دعائیں کرتے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حسین نظریہ کا خیال رکھنا چاہیے وہ یہ کہ یا اللہ! ’’ہماری اولاد کو اس لئے رزق نہ دے کہ وہ تیری یاد سے غافل ہو جائیں اور وہ رزق ان کے لئے وبال آخرت بن جائے بلکہ اس لئے رزق دے کہ وہ فقر کی وجہ سے پیدا ہونے والی تیری ناشکری کے خطرات سے محفوظ رہیں، جس کی فراخی پر تیرے شکر گزار بندے بن جائیں اور معاش کی فکر سے آزاد ہوکر تیرے دین ہی کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل رہ سکیں۔ ‘‘
آپ علیہ السلام نے یہی دعا فرمائی:
( وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ) ]سورہ ابراهيم :37 [
ِیعنی: ’’’یا اللہ انھیں پھلوں سے رزق دیتا کہ وہ تیرے شکر گزار بنے رہیں۔‘‘
……………………
یہ دعائیں کرتے ہوئے آپ علیہ السلام واپس لوٹے، ہاجرہ علیہا السلام پانی اور کھجوریں کھاتی رہیں، اور بچے کو دودھ پلاتی رہیں، جب پانی اور کھجوریں ختم ہوگئیں تو ماں بیٹا کو پیاس لگی، پانی کی تلاش میں قریبی پہاڑی صفا پر چڑھ کر دیکھا تاکہ کوئی آدمی نظر آجائے لیکن کوئی آدمی نظر نہ آیا، پھر دوڑ کر صفا مروا پہاڑی پر آئیں، ں کوئی انسان نظر نہ آیا، اسی طرح حیرانی وپریشانی میں سات چکر لگائے، اچانک دیکھا کہ جبرائیل امین کھڑے تھے، آپ علیہا السلام مخاطب ہوئے کہ آپ کون ہیں؟فر مایا :ابراہیم کے بیٹے اسماعیل کی ماں ہوں۔ جبرائیل امین نے پوچھا کہ وہ یہاں آپ کو کس کے سپرد کر گئے ہیں، جواب دیا کہ اللہ کے، تو جبرائیل امین نے فرمایا: پھر اللہ تم دونوں کو کافی ہے، پھر جبریل آمین نے اپنی ایڑی یا پر مارا اور زمین کھود ڈالی جس سے پانی نکل آیا، سیدہ ہاجرہ علیہا السلام اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد میں ڈھیر بنا رہی تھیں عبرانی زبان میں فرما رہی تھیں: ’’زم زم‘‘ یعنی رک جا رک جا، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ ام اسماعیل پر رحم فرمائے، اگر وہ زم زم کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتی تو وہ