کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 65
تعالیٰ کو ہی سمجھنا چا ہیے اور پھر اس پر شکر گزاری بھی اسی ذات کی کرنی چاہیے، دنیا کی کوئی چھوٹی یا بڑی ہستی ایسی نہیں جو ما فوق الاسباب رزق میں برکت نازل کرنے والی ہو سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ اسی لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو فرمایا تھا کہ یہ تمہارے بنائے معبود رزق کے مالک نہیں، رزق بھی اللہ سے مانگو اور عبادت بھی اسی کی کرو جو تمھارا رازق ہے، ارشاد فرمایا:
( إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ )
]سورہ عنكبوت :17 [
یعنی: ’’ بلا شبہ جن لوگوں کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو، وہ تمھیں رزق دینے کی کوئی ملکیت نہیں رکھتے، پس تم اللہ کے ہاں رزق طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر یہ بجا لاؤ، تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
اتنے واضح بیان کے باوجود کتنے ہی لوگ ہیں جو مخلوق کو رزق دینے والا اور برکت ڈالنے والا سمجتھے ہیں، اسی لیے اپنے جا نوروں، کھیتیوں اور دولت میں سے ان کے نام کا حصہ نکا لتے ہیں، یوں غیروں کو اللہ کا شریک بناتے اور شرک کرتے ہیں، کیا انھوں نے اللہ تعالیٰ کو رزق دینے سے عاجز سمجھا ہوا ہے؟
جن سے یہ رزق مانگتے ہیں، انھیں کون رزق دیتا ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بڑی وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ رزق کاضامن میں ہوں، جن سے تم رزق مانگتے ہو کچھ بھی ملکیت نہیں رکھتے، فرمایا:
( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا ) ]سورہ هود :6 [
یعنی: ’’ زمین میں چلنے پھرنے والے ہر جاندار کی روزی اللہ تعالیٰ پر ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
( اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِنْ شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ) ]سورہ روم :40 [