کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 63
إِبْرَاهِيمَ ۔ كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ۔ وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ ) ]سورہ صافات :103 تا112 [ یعنی: قربانی دینے میں کامیابی پر آپ علیہ السلام کو مینڈھا دیا گیا اور یہ بشارت دی گئی کہ آپ علیہ السلام کو ایک اور بیٹا بھی دیں گے، جس کا نام ہم نے خود اسحاق رکھا ہے اور ہم اس کو نبی اور صالح بنائیں گے۔ گویا کہ مندرجات قرآن کی روشنی میں ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں نہ کہ اسحاق علیہ السلام۔ بیوی بچے جیسا بیش بہا اثاثہ بے آب و گیاہ جنگل كےحوالے آخر کیوں ؟ سچ ہے کہ انسان جتنا عظیم ہو اس پر آزمائشیں بھی اتنی ہی عظیم ہوتی ہیں، آپ علیہ السلام نے اکلوتا بیٹا دعاؤں سے مانگ مانگ کر لیا تھا، مگر پیدا ہوتے ہی اللہ ذوالجلال کا حکم آتا ہے کہ اسے اور اس کی والدہ کو ویران جگہ پر تنہا چھوڑ دو، جدالانبیاء، پیکرِ وفاء علیہ السلام نے یہاں بھی سر تسلیم خم کیا اور فارانی پہاڑوں کی وادی بطحاء میں کہ جہاں چار سو خشک اور سنگلاخ پہاڑ، کانٹے دار جھاڑیوں کی کثرت اور سینکڑوں میل تک بشر کا نام و نشان نہیں، پانی تلاش کرنے سے نہیں ملتا، دونوں ماں بیٹا کو جنگلات کے حوالے کرکے خیرباد کہہ دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ علیہا السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو وہاں چھوڑا جہاں آج کل مسجدحرام واقع ہے، اور ان کو ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں آجکل زم زم ہے، اس وقت مکہ میں آدمی کا نام و نشان تک نہ تھا اور نہ ہی پانی تھا، البتہ بیت اللہ کی بنیادوں کے نشان باقی تھے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو ایک تھیلا کھجوروں کا اور ایک مشکیزہ پانی کا دیا اور واپس چل