کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 62
لقب سے ملقب کیا جاتا ہے، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ سیدنا اسحاق علیہ السلام ذبیح اللہ ہیں، نہ کہ اسماعیل علیہ السلام، ان کی یہ رائے درست نہیں، کیونکہ قرآن کے سیاق وسباق، تاریخ اور آثار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہھم سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں، مثلاً: (1) قربانی کے لئے خود تیار ہوجانا یہ حلم و بردباری کی اعلیٰ مثال ہے اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی بشارت پر ( فَبَشِّرْنَا هُ بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ ) کہہ کر بردباری کی صفت کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ سیدنا اسحاق علیہ السلام کی بشارت پر( بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ) علم کی صفت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (2) یہ بات بھی اتفاقی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام ہیں اور چھوٹے بیٹے سیدنا اسحاق علیہ السلام ہیں، لہٰذا بڑا بیٹا ہی اکلوتا ہوسکتا ہے، جس کی قربانی زیادہ معنی رکھتی ہے۔ (3)قرآن کریم میں اکثر مقامات پر پہلے اسماعیل علیہ السلام اور پھر اسحاق علیہ السلام کا ذکر ہے اور یہ کہ سیدنا اسحاق علیہ السلام کی بشارت دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ: ( مِنْ وَّرَاءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ) یعنی: ’’ہم نے آپ کو اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی اور ان سے ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی۔‘‘ بھلا جس کی پیدائش پر اس کی زندگی اور پھر اولاد کے ہونے کا ذکر کیا جائے، پھر اس کی قربانی مانگی جائے، کوئی وزن رکھتی ہے؟ یعنی سیدنا ابراہیم کو پہلے ہی معلوم ہو کہ یہ میرا بیٹا زبح نہ ہوگا، کیونکہ اس سے تو ابھی میرا پوتا یعقوب علیہ السلام پیدا ہونا ہے، تو پھر یہ آزمائش کیسی ہوئی اور قربانی کونسی؟ بلکہ سیاق قرآن گواہی دے رہا ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی میں کامیاب ہونے پر بطور انعام اسحاق علیہ السلام کی بشارت ملی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ۔ وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ - قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ - نَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ - وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ - وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ - سَلَامٌ عَلَى