کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 59
کوئی کہتا ہے : یا پیر کروڑی لے لے گڑ دی روڑی دے دے پتراں دی جوڑی اپنی اولاد کے نام بھی غیروں کی طرح منسوب کرتے ہیں۔ مثلاً پیربخش، ولی بخش، علی بخش، نبی بخش، ولی داد، اور پیراں دتہ وغیرہ ۔ ظلم کی انتہا ہے جب کہیں بیٹی مل جائے پیر سے متنفر نہیں ہوتے کہ یہ بیٹا دے سکتا ہوتا تو دے دیتا بلکہ کہتے ہیں’’ جو اللہ کے کام ہیں، بیٹی بھی تو اللہ کی رحمت ہے۔‘‘ یعنی بیٹے ان کے مرشد دیتے ہیں اور بیٹیاں اللہ دیتا ہے۔ یہ تو وہی عقیدہ ہے جو کہ مشرکینِ مکہ کا تھا، فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بناتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ اپنے لئے بیٹے بناتے ہو اور میرا شریک بنایا بھی تو بیٹوں کی بجائے بیٹی میرے لیے پسند کی ہے، کتنی بے عقلی ہے ۔ ( لَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى - تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى ) ] سورہ نجم :22، 21 [ یعنی:’’ کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہیں یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے ‘‘ غیروں سے مانگنے والوں نے بارہا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا کہ ان کے کتنے پیرومرشد خود اولاد سے محروم گزر گئے، مگر وہ سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے، سو وہ نہیں کرتے، انہیں عقل و شعور سے چڑ ہے، اسی لئے ان سے کوسوں دور ہے، سچ ہے کہ مشرک کی عقل ہی الٹ ہوتی ہے، آئیے قرآن کریم سے چند مقامات کی سیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کتنا واضح ارشاد فرمایا کی اولاد میں دیتا ہوں، جسے چاہتا ہوں اور جن سے تم اولادیں مانگتے ہو وہ تو بے بس ہیں، خود مخلوق ہیں۔ ( لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ - أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ