کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 57
ان تین تاویلات کے بعد سیدنا ابرہیم علیہ السلام کی بات خلافِ واقعہ نہ رہے گی جیسا کہ سامع نے سمجھا ۔ 2: ’’بل فعلہ کبیرہم ‘‘ یعنی: ’’ بتوں کو توڑنے والی کاروائی بڑے بت نے کی ہے‘‘۔ یہ محض قوم کو ڈانٹ ڈپٹ اور لاجواب کرنے کا ایک انداز ہے۔ اسی لئے قوم نے جواب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹ کے معاملے میں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ امام قرطبی نے کہا: دراصل بتوں کی عاجزی و درماندگی ثابت کرنے کے لیے یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تمہیدی کلمات تھے ۔ اسی لئے تو آپ علیہ السلام نے فورا مطالبہ کیا کہ: ’’فاسئلوهم ان كانو ينطقون‘‘ یعنی :اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے خود پوچھ لو ۔ یہ حقیقت حال ہے، لیکن بہرحال اگر الفاظ کے ظاہر کو دیکھا جائے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بات خلافِ واقع ہے اسی کو جھوٹ سے تعبیر کیا گیا، جو نام نہاد عقل مندوں کو سمجھ نہ آ سکا ۔ 3: سارا میری بہن ہے یہ تو بالکل واضح ہے کیونکہ سارا آپ علیہ السلام کی بیوی تھیں، انہیں بہن کہنا بظاہر خلاف واقع ہے، لیکن اگر گہرائی تک پہنچا جائے تو وہ آپ علیہ السلام کی نہ صرف اسلامی بہن تھیں بلکہ چچازاد بہن بھی تھیں۔ اسی لیے یہ جملہ حقیقت میں جھوٹ نہیں ہے، بس بظاہر خلافِ واقع ہے۔ (فتح الباری) تنبیہ : اگر کسی کا ذہن مذکورہ بالا حقائق تک رسائی حاصل نہ کر سکے تو کم از کم وہ یہ بات ذہن نشین کرلے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مفہوم کے مطابق ناگزیر حالات میں جھوٹ بولنا جائز ہے، بالخصوص وہاں جہاں اس کا فائدہ واضح ہو ۔ ذبیح اللہ علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عمر تقریباً چھیاسی (86) برس ہوچکی تھی، عام انسانوں کی طرح اولاد جیسی بیش قدر نعمت کا ہر انسان خواہش مند ہوتا ہے، رب تعالیٰ سے دعائیں