کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 56
اعتراض: بعض ناعاقبت اندیش لوگ، جنہیں منکرینِ حدیث کا لقب دیا جاسکتا ہے، مذکورہ بالا حدیث کے مفہوم کو نہ سمجھ سکے اور عصمت ِانبیاء کا سہارا لیتے ہوئے اسے جھوٹ پر مبنی قرار دیا ۔ جواب: ان لوگوں نے اپنی کج فہمی کی بنا پر جو اعتراض درج بالا حدیث پر کیا، وہی اعتراض قرآن مجید پر ہوتا ہے، کیونکہ حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے:میں بیمار ہوں، بتوں کو توڑنے والی شرارت بڑے بت نے کی ہے، اور سارا میری بہن ہے ۔ ان تین میں سے پہلی دو چیزوں (انی سقیم اور بل فعلہ کبیرھم )کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ خدا جانے کے اب یہ لوگ اس آیت مبارکہ کے بارے میں کیا کہیں گے ؟؟؟ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کا تعلق ’’با ب المعارض‘‘ سے ہے۔ یعنی یہ ایسی کلام ہے جسے سننے والا جھوٹ محسوس کرے گا لیکن تحقیق و تفتیش کے بعد اس کے جھوٹ نہ ہونے کو تسلیم کرے گا، کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کلام میں دونوں چیزوں کا احتمال پایا جاتا ہے۔ یہ کلام حقیقتِ حال سچ ہے لیکن بظاہر اور از روئے حال خلاف واقعہ ہے۔ تینوں کی تفصیل یوں ہے : (1)’’انی سقیم‘‘ یعنی: ’’ میں بیمار ہوں ۔‘‘ سننے والا اس جملے کو خلافِ واقعہ سمجھ کر اسے جھوٹ تصور کرے گا ۔ لیکن درحقیقت اس کے درج ذیل تین معنی ہوسکتے ہیں : (ا) میں بیمار ہو جاؤں گا۔ اس تاویل کی وجہ یہ ہے کہ اسم فاعل فعل المضارع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں فعل مستقبل کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ (ب) مجھے موت کی بیماری ہے ۔ (ج) تمہارے ساتھ نکلنے کے مسئلہ پر میں’’ سقیم الحجہ‘‘ ہوں یعنی میرے پاس دلیل نہیں ہے کہ میں تمہارے ساتھ نکلوں۔