کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 54
عمل: انسان عزت کی تلاش میں شرک کی شاہراہ پر
لہٰذا سیرت ابراہیم علیہ السلام کا حیات آفریں تقاضا ہے کہ عزت و ذلت کے اختیارات اللہ ہی کے ہاتھ میں سمجھے جائیں اور یہ عقیدہ ہو کے ہر قسم کا وقار، اسٹیٹس، اقتدار اور کرسی دینے والا چھیننے والا آن کی آن میں ذلیل و رسوا اور بے یارو مددگار کرنے والا صرف اور صرف اللہ رب ِعرش عظیم ہے۔ مگر بڑی بڑی ڈگریوں والے بیسیوں تغمے سجانے والے حتیٰ کے نام نہاد حکمران طبقہ کو دیکھا گیا ہے کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر، کرسی مضبوط کرنے کے لئے غیروں کی قدم بوسی آ کر رہے ہیں ۔ اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں، اللہ کے باغی غیر مسلم ممالک کو سپرپاور سمجھا ہوا ہے۔ کاش کہ یہ لوگ ایسا اعتقاد رکھ لیتے کہ اقتدار و کرسی، عزت و ذلت رب تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب تک جسے چاہے گا اسے ملے گی ۔
دوسرا رخ اس طرف ہے کہ اس کرسی کے حصول کے لیے یہ نام نہاد مسلمان حکمران درباروں پر جاتے ہیں اور کبھی دھکے شاہ سے چھڑیاں کھا آتے ہیں کہ کرسی مل جائے، اس عارضی عزت کے حصول میں ایڈوانس سوٹے کھا کر ذلت حاصل کر لیتے ہیں کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی کو بھول گئے ہیں:
( قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ] سورہ عمران :26 [
یعنی: ’’ فرمادیں کہ اللہ سلطنت کا مالک تُو ہی ہے، جسے چاہتا ہے بادشاہی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے، تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
…………………………
آپ علیہ السلام یہاں سے واپس لوٹے اور ارض فلسطین میں ’’السبع ‘‘کے مقام پر