کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 50
عمل: اختیارات اور تصرفات کا مالک صرف اللہ ہے ( وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْء ….….. ) ] سورہ ممتحنه:4 [ یعنی: ’’ میرے پاس کوئی اختیار اور ملکیت نہیں کہ میں ہر صورت آپ کو بخشوا کر جنت میں لے جاؤں۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس ارشاد گرامی سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ کسی پیر فقیر بڑے یا چھوٹے حتیٰ کے نبی کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں، یہ اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں کہ کسی کو معاف کرے یا نہ کرے، کسی کو بخشے یا نہ بخشے، کسی کو ہدایت دے یا نہ دے ۔ لہٰذا ان لوگوں کا عقیدہ باطل ہے جو کہتے ہیں کہ میں فلاں حضرت بخشوا لیں گے، وہ اللہ کے پیارے ہیں، اللہ نے ان کو اختیار دے رکھا ہے، یہ لوگ خود اپنے زعم میں ان لوگوں کو اللہ کے اختیارات دے کر ان کی آڑ میں اپنے عمل بھی چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی اونچی سرکار کا دامن پکڑا ہوا ہے، ہمیں عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ ہمیں خود بخشوا لیں گے ۔ جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ انبیاء جیسے عظیم المرتب لوگ بھی دوسروں کو تو کیا اپنوں کو بھی نہیں بخشا سکتے، آپ نے لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ پیر کا بیٹا پیر ہی ہوتا ہے یعنی وہ بھی پہنچی ہوئی سرکار اور اعلیٰ حضرت ہیں، حالانکہ بعض اوقات یہ پیرزادہ بہت بڑا ڈاکو، زانی، شرابی، بدکردار، تارکِ شریعت، اور دین سے بیزار ہوتا ہے، مگر پھر بھی ان لوگوں کے لیے ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتا ہے گویا کہ ان لوگوں نے صرف حسب ونسب کو ہی اخروی کامیابی اور آسمانی بادشاہت میں داخلے کے لیے کافی سمجھ لیا ہے حالانکہ وہاں جو چیز کام آئے گی وہ صرف اور صرف توحید کے بعد کیے جانے والے نیک اعمال ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( وَمَنْ بَطَّاَ بِهٖٖٖٖٖٖٖ عَمَلُه لَمْ يُسْرِ عْ بِهٰ نَسَبُه )) [1]
[1] ) صحیح مسلم کتاب الذکر و توبہ، باب فضل الاجتماع علی تلاوة القرآن وعلی الذ، کر حدیث: 6853