کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 49
دوسرے مقام پر فرمایا :
( وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ) ] سورہ عمران :160، ابراهيم :11 [
یعنی: ’’ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر ہی توکل رکھنا چاہیے ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ:
( وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا ) ] سورہ احزاب :48 [
یعنی: ’’اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو وہ بگڑی بنانے کے لیے کافی ہے ‘‘
یہ حکم اسی لیے دیا گیا کہ:
( وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ) ] سورہ طلاق :3 [
یعنی: ’’ اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرلے تو وہ اسے کافی ہوجاتا ہے ۔‘‘
…………………….
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے گھر سے نکلتے وقت باپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، مگر جب یقین ہوگیا کہ ہدایت اس کی قسمت میں نہیں، یہ رب کاپکا باغی ہے تو اس وعدے سے بھی باز آ جانے کا اظہار کیا، جس کا ذکر سورۃ توبہ میں اس طرح ہے :
( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ) ] سورہ توبۃ :114 [
یعنی: ’’ ابراہیم علیہ السلام باپ سے کئے گئے وعدے کی وجہ سے اس کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہے، جب آپ علیہ السلام کے لیے واضح ہوگیا کہ یہ تو رب تعالیٰ کا دشمن ہے تو انھوں نے اس سے بھی بیزاری اختیار کرلی، بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تحمل والے تھے۔‘‘